یہ امرت کال ہے ،اور سارا بھارت امرت کال میں جی رہا ہے ،اس امرت کال کو جی رہا ہے جس کا وہ کئی دہائیوں سے منتظر تھا ۔آخر وہ دن آہی گیا جب اس منتظر بھارت کے لوگوں کوایک ایسا نیتا مل ہی گیا جو امرت کی گنگا سورگ سے اتار کر بھارت کی دھرتی پر لے ہی آیا اور سارا بھارت امرت کال میں پرویش کر گیا ۔اب اس امرت کا ل کو اگر ہم سچ مان لیں تو پھر منی پور سے جو دو ماہ پہلے کی تصویر اور رپورٹ سامنے آ رہی ہے اسے افواہ مان لیں ؟اور اگر اسے افواہ ماننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ گجرات سے شروع کئے گئے مہم کا ایک پڑاؤ منی پور بھی ہے جہاں عیسائی کوکی خواتین کو پولیس سے چھین کر انہیں ذلیل کیا گیا ۔آج جمعرات کا دن ہے اور جولائی کی بیس تاریخ جب دو ماہ پہلے کا یہ ویڈیو منظر عام پر آیا ہے ،اور پارلیامنٹ سے لے کر چائے خانوں تک یہ گفتگو ہونے لگی کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے بھی اگر ملک کا سربراہ جو اس دور کو امرت کال بتا رہا ہے اگر خاموش ہے تو یقینا وہ تسلیم کر چکا ہے کہ منی پور ہمارے ملک کا حصہ نہیں ہے ۔کیونکہ جب ملک امرت کال میں پرویش کر چکا ہے تو پھر منی پور اس امرت کال کو دیکھ اور محسوس کیوں نہیں کر پارہا ہے ؟بہت سارے لوگوں کو یہ بھی لگ رہا ہے کہ منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلی بار ہو رہا ہے ۔لیکن ایسا وہی لوگ محسوس کر رہے ہیں جو گجرات کو بھلا چکے ہیں ۔ابھی حال ہی میں گجرات انتخاب کے چند ماہ پہلے جن ہندو ہردئے سمراٹوں کو گجرات سرکار نے ان کے بہترین کردار کی بنیاد پر معاف کیا تھا ان لوگوں کا جرم منی پور کےموجودہ سانحے سے کسی طور پر کم نہیں تھا ۔ایک عورت کو اس کے گھر کے تمام لوگوں کو قتل کر کے ،اس کی گود سے اس کے دودھ پیتے بچے کو چھین کر دیوار پر پٹک کر مار دینے کے بعد اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی تھی ۔لیکن چونکہ اس کا نام بلقیس تھا اس لئے اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو جنہیں عدالت نے تو عمر قید کی سزا دی تھی لیکن گجرات کی سرکار نے انہیں باضابطہ معاف کر کے جیلسے نکال کر ان کی گلپوشی کی جیسے وہ دھرم یدھ کر کے جیل سے لوٹے ہوں۔منی پور میں جو کچھ تین خواتین کے ساتھ ہوا ہے اس میں بھی اسی طرح کے کردار ہیں ۔یہاں مظلام کا مذہب عیسائی ہے ۔گجرات میں بھی وہی سربراہ تھا جو آج منی پور پر خاموش ہے ۔
منی پور میں ایک ہجوم کے ذریعہ تین خواتین کو برہنہ کرنے اور پریڈ کرنے کے دو ماہ سے زیادہ کے بعد، پولیس نے کہا کہ انہوں نے اجتماعی عصمت دری اور اغوا کا مقدمہ درج کر لیا ہے، اور جلد ہی انہیں گرفتار کر لینگے ۔یہ واقعہ 3 مئی کا ہے جب جھڑپوں کا آغاز ہوا تھا ۔اور ریاست میں پولیس کی کارروائی کے ساتھ یہ جنسی تشدد کے پہلے کیسوں میں سے ایک ہے جس کی رپورٹ اور پیروی کی گئی تھی لیکن آج تک صرف ایک شخص کی گرفتاری ہوئی ہے جبکہ اس ہجوم کے 900سے 1000لوگوں پر ایف آئی آر ہوا تھا ۔بدھ کو اس واقعے کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر سامنے آیا۔ کلپ میں دو خواتین نظر آ رہی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ 4 مئی کو تھوبل ضلع کے نونگ پوک سیکمئی میں پیش آیا جب خواتین ایک پرتشدد ہجوم سے بچنے کی کوشش کر رہی تھیں جس نے کانگ پوکپی ضلع میں ان کے گاؤں پر حملہ کیا تھا۔
پولیس ذرائع نے بتایا کہ 18 مئی کو کانگ پوکپی پولیس اسٹیشن میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ درج کرائی گئی۔ اب اسے تھوبل منتقل کر دیا گیا ہے۔واقعہ کی جگہ. ایف آئی آر میں کہا گیا کہ خواتین میں سے ایک کی عصمت دری کی گئی۔ گاؤں کے سربراہ کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کے مطابق، عصمت دری کا شکار ہونے والے کے والد اور بھائی کو ہجوم نے مار ڈالا۔شکایت میں کہا گیا ہے کہ 19 سال کا بھائی اپنی بہن کو ہجوم سے بچانے کی کوشش میں مارا گیا ۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تین خواتین سمیت پانچ دیہاتی اپنی جان کے خوف سے جنگل کی طرف بھاگ گئے تھے اور پولیس نے انہیں بچا لیا تھا۔ تاہم، تقریباً 900-1000 مردوں کے ہجوم نے، جن میں سے کچھ کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے، نے پولیس ٹیم کو روکا اور پانچوں کو پولیس کی تحویل سے چھین لیا۔ریاستی حکومت نے پانچ وادی اضلاع امپھال ایسٹ، امپھال ویسٹ، بشنو پور، کاکچنگ اور تھوبل اضلاع میں بدھ کو خواتین کے ایک گروپ کی طرف سے احتجاجی مارچ کی منصوبہ بندی کے بعد غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیاگیا ۔ایک منی پوری صحافی ہوئیہنو ہوزل نے ٹویٹر پر کہا،’’خواتین کو برہنہ کر دیا گیا، ان کو سر عام دن کی روشنی میں باندھا گیا اور مارا پیٹا گیا۔ ایک مجرم کی طرف سے لی گئی ایک پریشان کن ویڈیو آج لیک ہو گئی اور وائرل ہو گئی۔ اس سے انسانیت کی تمام سطحیں ٹوٹ جاتی ہیں۔‘‘
اس واقعہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نفرت کا زہر پورے ملک میں بری طرح پھیل چکا ہے اور یہ زہر اس لئے زیادہ مہلک ہے کہ یہ اکثریتی زعم کا زہر ہے جسے سیاسی پشت پناہی بھی حاصل ہے لہٰذا اس صورت حال سے اگر ملک کو باہر نہیں نکالا گیا تو پھر ہمارا اور ہمارے بچوں کا مسقبل پوری طرح تاریک ہو جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔
(شعیب رضا فاطمی)