نئی دہلی، سپریم کورٹ انتخابی بانڈز کی فروخت کی مدت میں 15 دن کی توسیع کے حالیہ نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے والی عرضی پر 6 دسمبر کو سماعت کرے گی۔چیف جسٹس ڈاکٹر دھننجے یشونت چدرچوڑ کی قیادت میں سپریم کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے انتخابی بانڈ اسکیم کو چیلنج کرنے والی پچھلی عرضیوں کے بیچ کے ساتھ 6 دسمبر کو اس معاملے کی سماعت کرنے پر اتفاق کیا۔مرکز کی طرف سے جاری کردہ نئے نوٹیفکیشن میں انتخابی بانڈز کی فروخت کیلئے ’15دن کی اضافی مدت‘فراہم کرنے کیلئے اسکیم میں ترمیم کی گئی ہے ۔درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل انوپ جارج چودھری نے عدالت عظمیٰ سے کہا ’وہ (مرکز) اسکیم کے خلاف نوٹیفکیشن جاری کر رہے ہیں۔ یہ نوٹیفکیشن مکمل طور پر غیر قانونی ہے‘۔انتخابی بانڈ پرامیسری نوٹ یا بیئرر بانڈ کی نوعیت کا ایک آلہ ہے جسے کوئی بھی فرد، کمپنی، فرم یا افراد کی انجمن خرید سکتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ شخص یا ادارہ ہندوستان کا شہری ہو یا ہندوستان میں شامل یا قائم ہو۔انتخابی بانڈز کو فنانس ایکٹ 2017کے ذریعے متعارف کرایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں تین دیگر قوانین میں ترمیم کی گئی تھی آر بی آئی ایکٹ، انکم ٹیکس ایکٹ اور عوامی نمائندگی ایکٹ تاکہ ایسے بانڈز کی شروعات کی جا سکے ۔فنانس ایکٹ 2016اور 2017کے ذریعے مختلف قوانین میں کی گئی کم از کم پانچ ترامیم کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستیں عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہیں۔ اس بنیاد پر کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں کیلئے لامحدود، بے قابو فنڈنگ کے دروازہ کھول دیئے ہیں۔درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ منی بل کا راستہ راجیہ سبھا کو نظرانداز کرنے کیلئے اختیار کیا گیا تھا، جہاں حکمران بی جے پی حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے ۔درخواست دہندگان – اے ڈی آر اور کامن کاز اور جیا ٹھاکر – نے انتخابی بانڈ اسکیم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ترامیم کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سالانہ شراکت کی رپورٹس جو الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کو جمع کرائی جائیں گی ان میں ان افراد کا نام اور پتہ درج کرنے کی ضرورت نہیں ہے جنہوں نے انتخابی بانڈز کے ذریعے سیاسی عطیات میں حصہ ڈالا تھا جس سے شفافیت ختم ہو جاتی ہے ۔فنانس ایکٹ، 2017نے انتخابی فنڈنگ کے مقصد کیلئے کسی بھی شیڈول بینک کے ذریعے جاری کیے جانے والے انتخابی بانڈز کا ایک نظام شروع کیا ہے۔