تل ابیب (ہ س)۔اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے زور دے کر کہا ہے کہ "ایک کامیاب معاہدہ وہ ہے جو جوہری ہتھیاروں کے مقاصد کے لیے یورینیم کو افزودہ کرنے کی ایران کی صلاحیت کو ختم کردے "۔ انہوں نے زور دیا کہ ایران کے ساتھ طے پانے والے کسی بھی معاہدے میں تہران کے بیلسٹک میزائل نظام کو بھی ختم ہونا چاہیے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے گذشتہ ستمبر میں لبنانی حزب اللہ کے ارکان سے ہاتھوں میں پھٹنے والی مواصلاتی ڈیوائز ’ پیجرز‘ کو اڑانے کے آپریشن کے بارے میں نئی تفصیلات کا انکشاف کیا۔نیتن یاہو نے اتوار کے روز یروشلم میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل نے "پیجرز کو دھماکے سے اڑا کر حزب اللہ کو ایک خوفناک صدمہ پہنچایا”۔انہوں نے وضاحت کی کہ حزب اللہ نے "تین پیجرز ایران کو معائنے کے لیے بھیجے تھے، اس لیے ہم نے آپریشن کو تیز کر دیا تاکہ ایران کے معائنے سے قبل ہی ان مواصلاتی آلات کو دھماکوں سے اڑا دیا جائے”۔نیتن یاہو نے کہا کہ "ہم نے دھماکہ خیز مواد کے ٹیسٹنگ ڈیوائس پر بمباری کی جسے پیجر کی جانچ کے لیے ایران سے لبنان منتقل کیا جانا تھا”۔انہوں نے مزید کہاکہ "ہم نے دریافت کیا کہ وہ آلات کو جانچ کے لیے ایران بھیج رہے تھے۔ میں نے پوچھا ‘یہ معلوم کرنے میں کتنا وقت لگے گا کہ آیا وہ بوبی ٹریپ ہوگئے ہیں؟’ مجھے صرف ایک دن بتایا گیا تھا، پھر میں نے فوری کارروائی کا حکم دیا‘۔انہوں نے کہا کہ چند”گھنٹوں کے اندر ہم نے ان ہتھیاروں اور میزائلوں کو تباہ کر دیا جو حزب اللہ 30 سال سے تیار کر رہی تھی”۔نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ اس نے "حزب اللہ کے حماس کے ساتھ جنگ میں داخل ہونے کے بعد لڑائی کو لبنان منتقل کیا۔ حماس نے سات اکتوبر کو حملہ کرنے کے اپنے فیصلے میں جلدی کی جس پر حزب اللہ حیران رہ گئی تھی”۔حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کے قتل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ امریکیوں کو نصراللہ کو نشانہ بنانے کے بارے میں اس وقت تک مطلع نہ کریں جب تک کہ ہمارے لڑاکا طیارے آپریشن سے قبل فضا میں نہ ہوں‘۔نیتن یاہو نے زور دے کر کہا کہ ان کے ملک نے حزب اللہ اور حماس کے سابق رہنما یحییٰ السنوار کے مشترکہ منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔نیتن یاہو نے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کی پٹی کا انتظام چلانے کی اجازت نہ دینے کا بھی عہد کیا۔ اپنی تقریر میں اس نے کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام "ایک مضحکہ خیز خیال ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست نے غزہ میں کیا کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ فلسطینی اسرائیل کے شانہ بشانہ کوئی ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے بلکہ اسرائیل کے اندر ایک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں”۔نیتن یاھو نے مزید کہا کہ ’’امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فلسطینیوں کا یہودی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار ہے‘‘۔غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم غزہ سے بقیہ یرغمالیوں اور مرنے والوں کی لاشیں نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حماس غزہ میں نہیں رہے گی اور ہم فلسطینی اتھارٹی کو غزہ کا انتظام چلانے کی اجازت نہیں دیں گے”۔نیتن یاہو نے سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے غزہ پر جنگ کے حوالے سے مختلف مراحل پر اسرائیلی حکومت پر ڈالے گئے دباؤ کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہاکہ بائیڈن انتظامیہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہم غزہ میں داخل ہوئے تو ہمارے ہتھیار روک دیں گے۔ اس لیے ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ایک باج گزار ریاست نہیں ہیں”۔ایران کے بارے میں اسرائیلی وزیر اعظم نے اس کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے پر زور دیا۔ اس نے کہا کہ تہران کے ساتھ کسی بھی معاہدے کو اسے بیلسٹک میزائلوں سے محروم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "آپ کو اس کے جوہری ڈھانچے کو ختم کرنا چاہیے اور یہ یورینیم کو افزودہ کرنے کے قابل نہیں چھوڑنا چاہیے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی معاہدے کو "اسے بیلسٹک میزائلوں سے محروم کرنے سے جوڑنا ہوگا۔ معاہدے میں صاف صاف یہ طے کیا جائے کہ ایران کے پاس جوہری اور میزائل پروگرام نہیں ہوں گے”۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ "ایک کامیاب معاہدہ وہ ہے جس میں جوہری ہتھیاروں کے مقاصد کے لیے یورینیم کو افزودہ کرنے کی ایران کی صلاحیت کو ختم کیا جائے اور معاہدے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایران کے پاس بیلسٹک میزائل پروگرام نہ ہو۔امریکہ اور ایران نے ہفتے کے روز عمان میں جوہری مذاکرات کے اپنے تازہ ترین دور میں پیش رفت کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ممالک ایک ماہ کے اندر بات چیت میں کسی معاہدے تک پہنچنے کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے متنازعے جوہری پروگرام پر معاہدہ طے پاجاتا ہے تواس سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی ہوسکتی ہے۔ایک سینئر امریکی اہلکار نے مذاکرات کو مثبت اور تعمیری قرار دیا جب کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پیش رفت کا اشارہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں کئی اختلافی امور بدستور موجود ہیں۔ اختلافات کو دور کرنے اور خلیج کو کم کرنے میں وقت لگے گا۔












