نئے سال کی آمد آمد ہے اور آج ہم 2022کی آخری شام کو یہ تحریر لکھ رہے ہیں۔یہ بات ہماری روایت کا حصہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام کے آغاز کو جشن کی طرح مناتے ہیں۔اس نئے سال کے آغاز میں بھی ہم یہی کریںگے اور سر شام سے ہی رات کے بارہ بجنے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہوئے ٹھیک بارہ بجے پٹاخوں کے دھماکوں کے درمیان وحشیانہ انداز میں اتنا شور مچائیںگے کہ ہمارے مہذب انسان ہونے پر بھی شک ہونے لگے گا۔یہ عمومی منظر نامہ ہے جو پوری دنیا میں ہمیں نظر آتا ہے اور ہر برس اس وحشت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔لیکن ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو گذرے برس کی اپنی کارکردگی کا احتساب بھی کرتے ہیں ،ناکامی سے سبق سیکھتے ہیں اور آنے والے سال کو بہتر بنانے کا عہد کرتے ہیں۔اور وہی لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
اس وقت ہمارے ملک میں قوم مسلم کی جو حالت ہے اس کے مد نظر ہمیں خاص طور پر یہ وطیرہ اختیار کرنا چاہئے کہ ہم اپنے معاشرے اور ملک کے لئے کس قدر مفید ہو سکتے ہیں اور ہمارا وہ کون سا عمل ہونا چاہئے جو ہمیں بطور خاص اس برس کرنے کی ضرورت ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ملی اداروں کی زبوں حالی کا رونا رونے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لیکن اس میں بہت زیادہ اضافہ بھی نہیں ہوا ہے کیونکہ بے حسی کا زہر بھی ہمارے اندر پوری طرح سرایت کرچکا ہے۔ اور تقریباً پورے ملک میں یہی صورت حال ہے۔سوشل میڈیا کی وجہ سے اب یہ آسانی ضرور ہو گئی ہے کہ اب آپ ان لوگوں کی تعداد کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں اور کسی حد تک ان کے مزاج کا بھی۔پہلی بات تو یہ کہ آزادی کے بعد سے ملک میں مسلمانوں کو ویلن بنانے کی جو مہم چلائی گئی اس کے سد باب میں ہی ایک عرصہ لگا اور اس عرصہ میں پاکستان نہ جانے والے مسلمانوں نے ایک ایسے بہتان کا سامنا کیا جس سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔”بٹوارے کے ذمہ دار مسلمان“ کے بہتان عظیم کا دفاع کرنا ہی ان کا اصل ایجنڈا بن گیا اور اسی تگ و دو میں تحریک آزادی میں مجاہدین آزادی کے ساتھ ساتھ قربانی دینے والی پوری نسل قبرستان پہنچ گئی اور ان کو اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ وہ پورے ملک میں بکھرے اپنے اثاثے یعنی وقف جائداد کو سنبھالنے کی فکر کرتے۔ سرکار تو ان جائدادوں پر قبضہ ہی کر رہی تھی لہٰذا اس نے ایسی پالیسی وضح کی کہ مسلم وقف جائدادپر اپنے نمائندے بٹھانے لگی۔ جبکہ اسی ملک میں سکھ مذہب کے لوگوں کو انگریزوں نے ہی یہ حق دے رکھا تھا کہ وہ اپنی وقف پراپرٹی اور مذہبی مقامات کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لئے آل انڈیا سطح کی ایک کمیٹی بنا لیں جس سے سرکار کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔آزادی کے بعد بھی یہ سلسلہ قائم رہا اور گرودوارہ پربندھک کمیٹی نہایت خوش اسلوبی سے اپنا کام کر رہی ہے اور اس کا انتخاب بھی الیکشن کمیشن آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقد ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ ادھر سے بدعنوانی کی کوئی خبر آ جائے۔ دوسری طرف مسلمانوں کےلئے جو وقف بورڈ بنایا گیا اس میں اول تا آخر سرکار کے ذریعہ نامزد ممبران کو ہی سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا گیا اور سنٹرل وقف کونسل سے لے کر ریاستی وقف بورڈ سمیت وقف بورڈ کے زیر انتظام مساجد و مدارس کے مہتمم بھی بر سر اقتدار سیاسی پارٹی کے لوگوں کو رکھا جانے لگا۔ اب ظاہر ہے چیئرمین سے لے کر ممبران تک جب برسر اقتدار جماعت کے کارکنان ہی ہوںگے تو پھر وہ ملت کی بات کریںگے یا اپنی پارٹی کے مفاد کو پیش نظر رکھیں گے.. ؟جن کی عنایت سے وہ چیئرمین یا ممبر بنے ہیں۔
ملت کے ادارے جو فی الحال ملک میں ہیں ان میں زیادہ تر وہ ہیں جو آزادی کے پہلے بنائے گئے تھے۔لیکن آزادی کے بعد جو حالت ملک میں مسلمانوں کی ہوئی وہی حالت ان کے اداروں کی بھی ہوئی اور ان کا زوال شروع ہوگیا۔ معاشرے میں جب مفاد پرستی کا زہر پھیلتا ہے تو وہ کسی خاص طبقہ، علاقہ یا زبان کے لوگوں تک محدود نہیں رہتا۔ ہمیشہ ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ مفاد پرستی سرمایہ داری کے بطن سے پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ معاشرے کے ہر طبقہ کو اس طرح متاثر کرتی ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔
دوسری بات یہ کہ آج جب ہم ملت اسلامیہ کے اداروں کی کسمپرسی اور زبوں حالی کی بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ کیا انفرادی طور پر بھی ہمارا ان اداروں کے تئیں جو فرض ہے وہ بھی ہم ادا کرتے ہیں..؟ کیا ہمارے چوبیس گھنٹے کے شیڈول میں ملی و اجتماعی سرگرمیوں کےلئے بھی کوئی وقت متعین ہے؟ عام طور پر نہیں ہے۔ لیکن جیسے ہی ہمیں کسی شعبہ یا ادارے میں کوئی کجی نظر آتی ہے تو ہم اس پر تنقید کرنے لگتے ہیں،اور پھر اسے اپنا حق بھی سمجھنے لگتے ہیں۔میرے کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بد عنوانی کے خلاف احتجاج غلط ہے بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احتجاج تو ضروری ہے مگر اجتماعی احتجاج سے ہی کسی مسئلہ کا حل نکلتا ہے، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گنتی کے چند افراد ہی تو اب باقی بچے ہیں اس معاشرے میں جو ملی کاز کےلئے اپنا وقت نکالتے ہیں اور پورا معاشرہ ان کے اس جذبے کو نظر انداز کر کے ان کی کارکردگی میں مین میخ نکالنا شروع کر دیتا ہے،جبکہ ایسی کسی خرابی کو درست کرنے کےلئے ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ اثر کا استعمال کرتے ہوئے باہم گفت و شنید کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کرے۔
موجودہ حالات میں سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے بچے کھچے اداروں کو کسی بھی قیمت میں فعال کریں کیونکہ اب نئے ادارے بنانے کا وقت نکل چکا ہے اور ملت مخالف سرکار سے اس کی اجازت لینا بھی ٹیڑھی کھیر ہی ہے ساتھ ہی ہماری مالی حالت بھی اب ایسی نہیں ہے کہ ہم خود مختار ادارے قائم کر سکیں۔رام پور میں اعظم خاں کے ذریعہ قائم کئے گئے مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ اب ایسے میں اپنی بصیرت کی روشنی میں ہمیں ملی اداروں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اپنی جدوجہد کے ذریعہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ملی اثاثوں کی حفاظت کی فکر کرنی چاہئے۔ ملت کی نمائندگی کرنے والے جو مٹھی بھر لوگ ہیں ان پر طنز کے تیر برسانے کی جگہ ان سے گفتگو کرنی چاہئے ،انہیں اخلاقی مدد پہنچانی چاہئے اور اجتماعی طور پر ان کے ساتھ کھڑے ہوکر مسائل سے لڑنے کےلئے انہیں حوصلہ دینا چاہئے۔مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حالات میں اس نئے سال میں ہمارے لئے کرنے کا یہ سب سے اہم کام ہے۔