اس امت کو جن اصحاب واشخاص سے اللہ تعالی نے فائدہ پہنچایا ان میں مجدد وقت، سالار دعوت سلفیت شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ہیں۔ ان کی اصلاحی اور دعوتی خدمات سے پوری اسلامی دنیا آگاہ ہے۔ انہوں نے بارہویں صدی ہجری میں دعوت واصلاح کی وہی روح پھونکی جو چھٹی اور ساتوی صدی ہجری میں امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگردوں نے پھونکی تھی۔ انہوں نے کتاب وسنت کی سچی تعلیمات سے مسلمانوں کو روشناش کرایا۔ کفر وشرک کی خطرناکیوں سے باور کرایا۔ صحیح اسلامی عقیدہ کی نشر واشاعت ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جنہیں تاقیامت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی مساعی جمیلہ اس وقت برصغیر سمیت دنیا کے تمام ملکوں میں محسوس کی ہیں۔ بالخصوص خلیج عرب میں عقیدہ توحید کے باب میں جو رسوخ اور پختگی پائی جاتی ہے وہ سب شیح محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی بے لوث کاوشوں کا ثمرہ ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کا مکمل نام محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان بن علی بن محمد بن احمد بن راشد التمیمی ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت سنہ 1115 ہجری میں شہر سعودی عرب کی راجدھانی ریاض کے شمال میں واقع علاقہ عیینہ میں ہوئی۔آپ کی نشوونما اور تعلیم وتربیت آپ کے والد ماجد شیخ عبدالوہاب رحمہ اللہ کے زیرسایہ ہوئی۔آپ کی ذہانت اور فطانت بچپن سے آپ کے اوپر نمایاں تھیں۔دس سال سے کم عمر میں آپ نے مکمل قرآن کریم حفظ کرلیا۔ بلوغت کے آغاز ہی میں آپ کے والد نے آپ کی شادی کردی۔
آپ کے پہلے استاد خود آپ کے والد بزرگوار شیخ عبدالوہاب تھے۔ ان سے آپ نے فقہ حنبلی کی کتابیں اور تفسیر اور حدیث کا درس لیا۔بچپن سے آپ کا میلان تفسیر حدیث اور عقائد کی کتابوں کی طرف تھا۔ بکثرت امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم کی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔
آپ نے حج کے مقصد سے مکہ مکرمہ اور مسجد نبوی کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ کا علمی او ردعوتی سفر کیا۔ علماءمدینہ سے آپ کی ملاقاتیں رہیں۔ ان سے بھرپور استفادہ کیا۔ شہر احساءسے ہوتے ہوئے نجد بھی گئے۔ اس پورے سفر میں آپ نے نجد اور دیگر علاقوں کی حالت زار کا قریب سے جائزہ لیا۔ لوگوں کی گمراہیاں اور ان کے غیر اسلامی عادات واطوار پر آپ کافی افسردہ خاطر ہوئے۔ اس وقت آپ نے دعوت وتبلیغ کا عزم مصمم کرلیا۔ بالخصوص مدینہ کے لوگوں کی بدعقیدگیوں سے آپ بے حد ملال خاطر ہوئے ۔اس وقت اللہ کو چھوڑ کر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کیا کرتے تھے۔ بعض قبروں کو صحابہ سے منسوب کرکے ان سے مرادیں مانگا کرتے تھے۔ ان قبروں کا طواف اور حج تک ہواکرتا تھا۔عورتیں کھلے عام پیڑپودوں سے اپنی تمناؤں کی تکمیل کی دعائیں کرتی تھیں۔حجاز میں صحابہ، آل بیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبروں سے لوگ وہ معاملہ کرتے تھے جو صرف اللہ تعالی سے کیا جانا چاہئے۔ عراق شام مصر اور یمن میں بھی جاہلی رسوم ورواج کی کثرت تھی۔ لوگ ایسے اعمال کیا کرتے تھے جنہیں عقل تسلیم کرے نہ شریعت۔ ان امور نے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کواس بات پر آمادہ کیا کہ وہ توحید کی دعوت کو عام کریں، اور لوگوں کو شرک وکفر کی وادی سے اسلام کی صاف وشفاف شاہراہ کی طرف لائیں۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے لوگوں کو وہی راستہ دکھلایا جو قرآن ،حدیث اور صحابہ وتابعین کا راستہ تھا۔ انہوں نے کوئی نیا عقیدہ یا کوئی نئی راہ لوگوں کے سامنے نہیں پیش کی۔ لیکن چونکہ لوگ کفریہ اور شرکیہ اعمال کے دلدادہ ہوچکے تھے۔ شیطان نے ان کو اپنے دام میں جکڑ لیا تھا اس لئے بہتوں کو کتاب وسنت کا راستہ نیا راستہ معلوم ہونے لگا۔لیکن وہ حضرات جن کے پیٹ قبروں سے پلتے تھے وہ بلبلا اٹھے۔ شیخ رحمہ اللہ کے خلاف نے سازشیں کیں۔ ان کے خلاف دشنام طرازیاں ہونے لگیں۔ توحید کی اس خالص دعوت کو مختلف مذموم نام دیئے گئے۔لیکن عزم وحوصلہ کے اس سپاہی نے بلا کسی خوف وخطر کے دعوت کا عمل جاری رکھا۔ اذیتیں برداشت کیں۔ گالیاں سنیں۔ شہر بدر کئے گئے۔ مگر حق کی آواز کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ آپ کے اس پورے دعوتی اور اصلاحی سفر میں آل سعود نے پورا ساتھ دیا۔ ان کی ظاہری اور معنوی توانیاں آپ کے شامل حال رہیں۔ ان دونوں خاندانوں کا تال میل جیسے بارہوں صدی میں تھا ویسے آج پندرہوں صدی میں بھی ہے۔ اس وقت سعودی عرب پوری دنیا کے لئے توحید وعقیدہ کے معاملے میں آئیکن اور بہترین نمونہ بن چکا ہے۔ ہر گھر توحید کی روشنی میںنہا رہا ہے اور شہر بقعہ نور بنا ہوا ہے۔ اس میں ذرہ برابر غلو نہیں کہ اس وقت دنیا میں جہاں بھی توحید وسنت کی روشنی پائی جاتی ہے اس میں سعودی عرب کا کلیدی کردار ہے۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت اور عقیدہ کو لیکر اب بھی بہت سارے لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا نظر آتے ہیں اور ان سے محبت کرنے والوں کو اپنا دشمن جانتے ہیں ۔ ایسے سادہ لوح لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ آپ رحمہ اللہ کی دعوت اور عقیدہ کا محور ومرکز کتاب وسنت تھا جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا۔ آپ نے وہی منہج اختیار کیا جو ائمہ اربعہ صحابہ کرام تابعین تبع تابعین اور دیگر اسلاف جیسے سفیان ثوری سفیان بن عیینہ ابن المبارک امام بخاری امام مسلم امام ابو داود امام ابن تیمیہ امام ابن القیم اور امام ذہبی رحمہم اللہ کا تھا۔
ارکان ایمان ہو یا ارکان اسلام اس سلسلہ میں آپ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور منہج پر قائم تھے۔ ہر معاملے میں وسطیت کے آپ سچے پیروکار تھے۔ قدریہ جبریہ مرجئہ وعیدیہ حروریہ معتزلہ جہمیہ روافض اور خوارج جیسے گمراہ فرقوں کا کبھی آپ نے سپورٹ نہیں کیا۔قرآن کو اللہ کا خالص کلام سمجھتے تھے۔ اس بات کے قائل تھے کہ اس دنیا جہاں میں کوئی بھی کام اللہ کے ارادے اور مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ آخرت کے وقوع اور جنت وجہنم کے وجود پر آپ کا پختہ ایمان تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو آپ یقینی جانتے تھے مگر اس شفاعت کو آپ اللہ تعالی کی اجازت اور رضامندی سے مربوط قرار دیتے تھے۔ اس لئے کہ آخرت کی شفاعت بلا اللہ تعالی کی اجازت کے کسی کو حاصل نہیں ہوسکے گی۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت اس بات پر مرکوز تھی کہ مومن آخرت میں اپنی آنکھوں سے اپنے رب کا دیدار کریں گے۔ اور اس رویت میں کوئی چیز حائل نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کی دعوت دیا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں۔ اور کسی کا ایمان بلا آپ کی رسالت اور نبوت کو تسلیم کئے بغیر کامل نہیں ہوسکتا۔ صحابہ میں سب سے افضل ابو بکر صدیق، اس کے بعد عمر فاروق، عثمان غنی اور علی بن ابی طالب، ان کے بعد عشرہ مبشرہ، اہل بدر،اصحاب بیعت رضوان اور پھر بقیہ صحابہ ہیں۔
آپ رحمہ اللہ کرامات اولیاءکے منکر نہیںتھے۔ بلکہ ایسی کرامات کا انکار کرتے تھے جن میں لوگ غلو کرتے اور اولیاءکو ایسے حقوق عطاکرتے ہیں جو صرف اللہ تعالی کے شایان شان ہیں۔ محض کسی گناہ کی بدولت آپ کسی مسلمان کے تکفیر کے قائل نہیں تھے۔جب تک کوئی حاکم وقت کھلم کھلا معصیت کی دعوت نہ دے اس کی اطاعت وپیروی سے کنارہ کشی یا اس کے خلاف بغاوت نہ کیا جائے۔ایمان کے حوالے سے آپ رحمہ اللہ کا یہ عقیدہ تھا کہ اس کا تعلق زبان عمل اور دل سے ہے۔مذکورہ عقائد کو سامنے رکھ کر ہر ذی شعور یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی دعوت باعث رحمت تھی۔ ان کی کوششوں کے ہر سب احسان مند ہیں۔