14اور پندرہ اگست 1947کو لاکھوں جانیں گئیں، بستیاں اجڑ گئیں، عوام آج بھی ناانصافی اور نوکر شاہی کے شکنجے میں ہیں۔ پھر بھی ہندوستان اور پاکستان کے لوگ اس روز جشن مناتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس آزادی کا؟
14اگست کو پاکستان اور 15 اگست کو ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر آزادی کا شور برپا ہوتا ہے، ترنگے اور سبز ہلالی پرچم لہرائے جاتے ہیں، تقاریر ہوتی ہیں، آتشبازی جلائی جاتی ہے۔ لیکن کیا یہ سب کچھ ان لاکھوں مظلوم انسانوں کی چیخوں کو دبا سکتا ہے جو تقسیم کے خونی طوفان میں کچلے گئے؟ کیا یہ جشن ان بے گھروں کے آنسو پونچھ سکتا ہے جنہیں اپنی مٹی، اپنی جڑوں اور اپنی شناخت سے بچھڑنا پڑا؟
سچ یہ ہے کہ آزادی کے نام پر ہمیں انگریز وں سے نجات ملی، مگر کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟کیا جمہوریت اپنے وسیع تر مفہوم کے ساتھ ہمارے ملک میں رائج ہو گیا؟ کیا آج بھی ہمارا نظام انصاف سرمایہ داروں اور باہو بلیوں کے قدموں میں نہیں جھکا ہوا؟ کیا نوکر شاہی آج بھی عام شہری کو ذلیل و خوار نہیں کرتی؟ کیا غربت، بے روزگاری، کرپشن اور فرقہ واریت نے عوام کو غلام بنا کر نہیں رکھا؟کیا آج بھی ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ من وعن پیش نہیں کرتا ؟کیا آج بھی بھی سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لئے میڈیا کو خرید نہیں جاتا؟کیا آج بھی دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لئے غریب نقل مکانی نہیں کرتے ؟کیا آج بھی علاقائی تعصب کے مارے لوگ مزدوروں کو اپنے ہی ملک میں مزدوری کرنے کے حق سے محروم کر رہے ہیں ،لیکن ان مزدوروں کی سدھ لینے والا کوئی نہیں ہے ۔اب تو حد یہ ہو گئی ہے کہ الیکٹورل سسٹم ہی شک کے گھیرے میں ہے ۔اور عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکہ ڈالنے والے لوگ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر نہایت بے شرمی کے ساتھ خود اپنے منہ سے اپنی تعریف کے پل باندھنے میں مصروف ہیں ۔ اگر یہ سب کچھ آج بھی چل رہا ہے تو پھر یہ آزادی کہاں ہے؟
اصل سوال یہ ہے کہ جب عام آدمی خوف کے سائے میں جئے، جب انصاف غریب کی پہنچ سے باہر ہو، جب برابری صرف کتابوں میں ہو اور جب سیاست عوام کی امانت نہیں بلکہ چند خاندانوں اور طبقوں کی جاگیر بن جائے— تو کیا ایسے میں جشن منانا مذاق نہیں لگتا؟کیاایسے دور میں جب جب پوری دنیا ایک دوسرے ملک کی ہر صورت حال سے واقف ہے ملک میں منائے جانے والے ایسے جشن کو دیکھ کر ہمارا مذاق نہیں اڑاتی ؟
لیکن ایسے 79جشن منانے کے بعد بھی ہمیں اس کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں کہ ۔آج جب ہم ملک کے مختلف حصہ میں آزادی کا جشن منا رہے ہیں ہمارے ہی ملک کی دو ریاست کشمیر اور منی پور میں عام عوام سنگینوں کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں ۔ان ریاستوں کے لوگ جب صبح اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے وہ اپنے آس پاس میں رہنے والوں کی خییریت پوچھتے ہیں کہ آیا رات کی تاریکی میں کس کس کے گھروں میں کتنے افراد کی جان کا اتلاف ہوا ؟کس گھر میں معصوم بچیوں کی عصمت تار تار کی گئی ۔ان کی حکومت اور اس کے اہلکاروں سے بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے ۔وہ اپنے حال پر آنسو بہا رہے ہیں اور مستقبل سے مایوس ہیں لیکن اس بے یقینی کے ذمہ دار فرمانروا زرق برق لباس میں ملبوس اپنے کارناموں کی توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں ۔
آزادی کا مطلب صرف پرچم لہرانا یا تقریر کرنا نہیں۔ آزادی کا مطلب ہے انصاف، برابری اور عزتِ نفس کی ضمانت۔ آزادی کا مطلب ہے کہ کوئی بھی شہری خود کو کمزور یا مجبور نہ سمجھے۔ جب تک یہ سب نہیں ملتا، تب تک 14 اور 15 اگست محض ایک سوال ہیں، جشن نہیں۔