ایران اسرائیل کشیدگی کا بخار اب بہت تیز ہو چکا ہے ۔ دونوں طرف سے حملہ جاری ہیں اور امریکہ کے براہ راست حملوں نے صورت حال کا مزید سنگین کر دیا ہے اور جیسا کہ کل تک اس کی شدت میں کمی آنے لگی تھی اب اس کے امکان ختم ہوگئے کیونکہ امریکی حملہ کے بعد ایران نے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملہ کئے ہی ہیں اب اس نے دریائے ہرمز کو بھی بند کرنے کی جانب قدم بڑھا دئے ہیں جو پوری دنیا تیل سپلائی چین کو متاثر کریگا ۔ایران کا اب انتہائی قدم اٹھانا لازمی ہے ورنہ پھر اتنا کچھ کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ جنگ ایران پر تھوڑا گیا ہے اور ایسی حالت میں جب تقریبا تین دہائیوں کی بین الاقوامی پابندیوں سے اس کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے ۔ایران کی دور اندیشی کا جواب نہیں جس نے برسوں پہلے سے یہ پلاننگ شروع کر دی تھی کہ ایک نہ ایک دن اسے عالمی طاقتوں کے مقابلے میں کھڑا ہونا ہوگا ۔اور جیسے ہی وہ دن آیا اس نے محض ایک ہفتہ میں ناقابل شکست سمجھے جانے والے اسرائیل پر یہ ثابت کر دیا کہ ایران لوہے کا چنا ہے جسے چبانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔یقینا اس حصولیابی کے لئے اسے بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ہے اور اپنے کم ازکم بیس اعلی دماغوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں فوجیوں اور عام لوگوں کی ہلاکت کا غم برداشت کرنا پڑا ہے ۔اور اب جب بہت سوچ بچار کے بعد امریکہ نے بھی اس جنگ میں براہ راست مداخلت کردی ہے تو اب یکایک اس پورے جنگ کا نقشہ بدل گیا ہے ۔یاد رہے کہ امریکہ کے براہ راست ملوث ہونے سے چین اور روس دونوں کی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب ان پر سے یہ پابندی خود امریکہ نے ختم کر دی ہے ۔اب سب سے بڑا سوال ابھر کر یہ سامنے آرہا ہے کہ امریکہ کے براہ راست اس جنگ میں شامل ہونے کے بعد بھارت کا اگلا قدم کیا ہوگا ؟کیونکہ یہ وقت وہ ہے کہ بھارت سے اسرائیل اور امریکہ دونوں یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اب وہ کھل کر ایران کے خلاف عملی اقدام میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دے ۔
بھارت کا اسرائیل کی جانب غیر متوازن جھکاؤ کئی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ ایک طرف بھارت خود کو ایک بڑی جمہوریت، عدم وابستگی (Non-alignment) اور "سب کے ساتھ، سب کے وکاس” کے اصولوں پر کاربند بتاتا ہے، تو دوسری طرف ایک متنازعہ تنازعے میں اسرائیل کی یکطرفہ حمایت نے اس کے غیر جانبدار کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ایران ایک اہم اسلامی ملک ہے، جس کے ساتھ بھارت کے صدیوں پرانے ثقافتی، تجارتی اور تزویراتی (Strategic) تعلقات رہے ہیں۔ بھارت نے ماضی میں چابہار بندرگاہ کے ذریعے وسط ایشیاء تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایران سے قریبی تعلقات قائم کیے۔ توانائی کے میدان میں بھی ایران بھارت کے لیے ایک قابلِ اعتماد ذریعہ رہا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سفارتی تعلقات میں بے پناہ اضافہ ہوا، جو کسی حد تک فطری بھی ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب بھارت کھلے عام ایسے اقدامات کرتا ہے جو اسرائیل کی حمایت میں ایران کو ناراض کر سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہوں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت کا اندرونی سیاسی منظرنامہ بھی عالمی پالیسی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کی اسرائیل نواز پالیسی اور ایران مخالف بیانیہ، بعض حلقوں میں "اسلامی دنیا سے دوری” اور "صہیونی سوچ سے قربت” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے بھارت شاید قلیل المدتی سفارتی فوائد حاصل کر لے، لیکن طویل المدتی نقصان اسے مسلم دنیا سے فاصلہ بڑھنے کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے، خصوصاً جب سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے ممالک بھی ایران سے روابط بحال کر رہے ہوں۔
ایران کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی اسرائیلی و امریکی کوششوں میں بھارت کا ساتھ دینا خطے میں بھارت کے کردار کو محدود کر سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام، وسط ایشیا تک تجارتی رسائی، اور اسلامی دنیا میں بھارت کی ساکھ—یہ سب کچھ ایران مخالف پالیسی سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہی وقت ہے جب بھارت کو اپنے خارجی اصولوں، بالخصوص عدم مداخلت اور غیر جانبداری، پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ایران اسرائیل تنازعے میں بھارت کو ایک متوازن اور محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔ اسرائیل کی یکطرفہ حمایت نہ صرف ایران جیسے اہم علاقائی اتحادی سے فاصلے پیدا کر رہی ہے بلکہ بھارت کے طویل المدتی مفادات کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر بھارت عالمی طاقت بننے کا خواب دیکھتا ہے، تو اسے سفارت کاری میں توازن، مفادات میں دور اندیشی، اور پالیسیوں میں ہم آہنگی کو اپنانا ہوگا۔