ایران اسرائیل تنازعہ کے درمیان امریکی مداخلت حیرت انگیز نہیں ہے ۔بلکہ سچ یہ ہے کہ خلاف توقعہ جب ایران نے اسرائیل پر موثر جوابی کارروائی شروع کی اور اسرائیل کے کئی شہروں کو تباہ کر دیا تب ہی سے ساری دنیا یہ توقع کرنے لگی تھی کہ اب امریکہ کی مداخلت ناگزیر ہے ۔کیونکہ ساری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دو الگ الگ ملک ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہیں ۔اور دنیا تو اس بات سے آگے بڑھ کر یہ بھی سوچتی رہی ہے کہ اسرائیل مشرق وسطی میں امریکہ اور دیگر نیٹو ممالک کا واچ ڈال ہے جو مسلسل امریکی مفاد کی نگرانی کرتا ہے ۔ایسے میں امریکہ اسرائیل کی شکست کو کیسے قبول کر سکتا ہے ۔ایسے میں اتوار کی صبح جب امریکہ نے ایران کے تین ایٹمی پلانٹ پر بمباری کی تو کسی کو بھی کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی ۔ہاں اس بات کی تصدیق ضرور ہو گئی کہ ایران نے اسرائیل پر اپنی فوجی قوت کا رعب طاری کر دیا تھا ۔دراصل گزشتہ چند برسوں سے ایران کے جوہری پروگرام پر دنیا بھر کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی طاقتیں مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے قریب ہے، جب کہ ایران بارہا اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کا نیوکلئیر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔خود امریکہ کی ایک تفتیشی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں یہ کہدیا تھا کہ ایران کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ اس پس منظر میں ایک نیا سوال ابھر رہا ہے: کیا واقعی کچھ ممالک ایران کو جوہری ہتھیار دینے کو تیار ہیں؟
اگرچہ بین الاقوامی سیاست میں ہر امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مگر اس سوال کا حقیقت پسندانہ جواب یہی ہے کہ براہِ راست کسی ملک کی طرف سے ایران کو جوہری ہتھیار دینے کا کوئی مصدقہ یا سرکاری ثبوت موجود نہیں ہے۔ البتہ چند خفیہ اتحاد، اسلحہ کی غیر علانیہ اسمگلنگ اور اسٹریٹیجک حمایت کے امکانات ضرور زیرِ بحث رہتے ہیں۔
روس، چین، شمالی کوریا اور بعض وسط ایشیائی ریاستوں کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ضرور ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی ملک بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کھلے عام ایران کو جوہری ہتھیار دینے کا خطرہ مول نہیں لے گا، کیونکہ اس کا مطلب عالمی پابندیاں، سفارتی تنہائی اور عسکری ردعمل ہو سکتا ہے۔تاہم ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیت کے پیچھے داخلی تکنیکی ترقی، یورینیم افزودگی، اور سائنس دانوں کی مستقل کوششیں شامل ہیں۔ ایران کو کسی دوسرے ملک سے براہِ راست جوہری ہتھیار نہ بھی ملیں، تب بھی وہ خود اپنے بل بوتے پر اس ہدف کے قریب پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی لیے اسرائیل اور مغربی دنیا ایران کو روکنے کے لیے سخت پابندیاں، سائبر حملے، اور خفیہ کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ اگر ایران کو کسی حد تک خفیہ تکنیکی یا مواد کی مدد کسی اتحادی ملک سے ملی ہو، تو بھی یہ مدد براہِ راست جوہری ہتھیار دینے کی شکل میں نہیں بلکہ معاون ٹیکنالوجی، آلات یا سائنس دانوں کے تبادلے کی صورت میں ہو سکتی ہے — جو بظاہر قابل تردید ہوتی ہے۔عالمی برادری کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے۔ اگر ایران کو جوہری طاقت حاصل ہوتی ہے تو سعودی عرب، ترکی اور دیگر علاقائی طاقتیں بھی اپنے اپنے جوہری عزائم پر کام تیز کر دیں گی۔ یوں پوری دنیا ایک خطرناک اسلحہ کی دوڑ کی طرف بڑھ جائے گی۔لیکن یہ خدشہ ہنوز برقرار ہے کیونکہ ایران کے خلاف بلا اشتعال اسرائیلی حملہ کے بعد مشرق وسطی کے کئی مسلم ممالک یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ امریکہ سمیت یوروپی ممالک کا یہ مشن بھی ہے کہ وہ کسی مسلم ملک کو جوہری ہتھیار بنانے دینے کے حق میں نہیں ہیں ۔یہ واضح اشارہ بھی خود امریکہ اور اس کے معاون ملک کے عملی اقدام نے ہی دیا ہے ۔لیکن یہ خبر جو گشت کر رہی ہے کہ ایران کو کئی ممالک بنا بنایا جوہری ہتھیار دینے کو تیار ہیں اس کا کوئی مصدقہ ثبوت ابھی تک تو سامنے نہیں آیا ہے ۔اور اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فی الحال کسی ملک کی طرف سے ایران کو جوہری ہتھیار دینے کی بات محض قیاس آرائی پر مبنی ہے، لیکن اس قیاس آرائی کے پیچھے جو خدشات ہیں، وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ ایران کا جوہری پروگرام ایک حساس عالمی مسئلہ ہے، جسے صرف مذاکرات، شفاف معاہدوں، اور علاقائی اعتماد سازی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے، نہ کہ محض الزامات اور دباؤ کے ذریعے۔