یروشلم(ہ س)۔اسرائیلی فضائیہ نے آج بدھ کی صبح سویرے جنوبی شام پر فضائی حملے کیے۔ یہ کارروائی مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں پر داغے گئے دو راکٹوں کے جواب میں کی گئی۔ شامی ذرائع کے مطابق یہ حملے درعا، قنیطرہ اور سعسع کے نواحی علاقوں میں مختلف مقامات پر کیے گئے۔اسرائیلی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ لڑاکا طیاروں کے ذریعے شام کی حکومت سے وابستہ عسکری تنصیبات” کو نشانہ بنایا گیا، جو جنوبی شام میں واقع ہیں۔اسرائیلی فوج کے مطابق منگل کی شب نو بج کر 36 منٹ پر "حاسبین” اور "رمات ماغشیمیم” میں سائرن بجنے کے بعد شام سے داغے گئے دو راکٹ اسرائیل میں داخل ہوئے، مگر غیر آباد علاقوں میں جا گرے۔ چند لمحوں بعد اسرائیلی فوجی ریڈیو نے اطلاع دی کہ فوج نے شامی علاقوں پر حملہ شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق جنگی طیاروں نے شامی فضائی حدود میں تیز رفتاری سے پرواز کی۔اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے شامی صدر احمد الشرع کو ان حملوں کا براہِ راست ذمے دار ٹھہراتے ہوئے وزارت دفاع کے ایک بیان میں کہا "ہم شام کے صدر کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی حملے یا خطرے کا براہِ راست ذمے دار سمجھتے ہیں”۔ انھوں نے مزید کہا کہ "جلد ایک جامع ردِ عمل دیا جائے گا”۔حاسبین اور رمات ماغشیمیم، گولان کی جنوبی پہاڑیوں میں واقع ہیں، جن پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا اور 1981 میں ان کے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق دسمبر میں سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد اسرائیلی افواج نے گولان کی پہاڑیوں میں واقع غیر فوجی علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا، اور شام میں سیکڑوں فضائی حملے کیے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شام کی نئی حکومت کو جدید اسلحہ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔اتوار کو جاری ایک بیان میں اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کی افواج جنوبی شام میں "دفاعی کارروائیاں” جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کا مقصد "دہشت گردی کے ڈھانچے کو ختم کرنا اور گولان کے رہائشیوں کی حفاظت” ہے۔شام کی نئی حکومت بارہا کہہ چکی ہے کہ وہ اسرائیل سمیت اپنے کسی بھی ہمسایہ ملک کے لیے خطرہ بننے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ حالیہ دنوں میں شام اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے براہِ راست مذاکرات بھی شروع ہوئے ہیں، حالاں کہ اسرائیلی حملے اب بھی جاری ہیں۔اسی دوران امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، ٹوم باراک نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر شام کو دہشت گردی کے معاون ممالک کی فہرست سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکی انتظامیہ کا بنیادی مقصد "موجودہ شامی حکومت کو مضبوط کرنا” ہے۔ شام اور اسرائیل کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے انھوں نے ان کو "قابلِ حل مسئلہ” قرار دیا اور دونوں ممالک کے درمیان جاری مکالمے کی حمایت کی۔