ویانا(ہ س)۔عالمی خوراک پروگرام کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کارل سکاؤ نے جمعہ کے روز بتایا کہ اسرائیلی حکام نے ان سے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ ہی غزہ کی پٹی میں امداد پہنچانے کا مرکزی ذریعہ بنی رہے۔سکاؤ نے گزشتہ ہفتے غزہ اور اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے جمعہ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن” (جس پر تنازع جاری ہے) کی سرگرمیوں پر بات نہیں ہوئی۔سکاؤ نے اْن اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جن سے وہ ملاقات کر چکے تھے "وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ امداد پہنچانے کی مرکزی جماعت بنی رہے، خاص طور پر اگر جنگ بندی طے پا جائے۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ ہم امدادی کام کو وسعت دینے کے لیے تیار رہیں”۔واضح رہے کہ امریکہ، مصر اور قطر غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حماس نے بدھ کے روز کہا تھا کہ امداد کی روانی ان نکات میں سے ہے جن پر اختلاف باقی ہے۔اسرائیل اور امریکہ نے کھلے عام اقوام متحدہ پر زور دیا تھا کہ وہ امداد کی ترسیل کے لیے نئی ’’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘‘ کے ذریعے کام کرے، لیکن اقوام متحدہ نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس نے ادارے کی غیر جانب داری پر شکوک ظاہر کیے اور کہا کہ اس کا تقسیمِ امداد کا ماڈل درحقیقت امداد کو عسکری رنگ دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں شہریوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔سکاؤ نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ ہفتے مختلف سطحوں پر اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کیں اور ان میں ’’اس ادارے‘‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔انھوں نے مزید کہا "میرا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کو ہٹانے کی افواہیں گردش کر رہی تھیں، لیکن جن بات چیت میں میں شریک رہا، ان میں بالکل واضح طور پر یہی سامنے آیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ ہی امداد پہنچانے کا مرکزی ذریعہ بنی رہے”۔اسرائیل نے 19 مئی کو غزہ پر 11 ہفتے سے جاری انسانی امداد کا محاصرہ ختم کر دیا تھا، جس کے بعد اقوام متحدہ کو محدود پیمانے پر امداد کی ترسیل کی اجازت ملی۔ اس کے تقریباً ایک ہفتے بعد ’’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘‘ نے غزہ میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا، جس میں امریکی نجی سیکیورٹی کمپنیوں اور لاجسٹک اداروں کی مدد سے امدادی سامان کو تقسیم کے مراکز تک منتقل کیا گیا۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعہ کے روز اپنی معمول کی بریفنگ میں بتایا کہ 27 مئی سے 7 جولائی تک 798 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے 615 ’’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘‘ کے مقامات کے آس پاس ہلاک ہوئے، جبکہ 183 افراد ان قافلوں کی جانب جاتے ہوئے مارے گئے جن میں امداد منتقل کی جا رہی تھی۔دوسری جانب ’’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن‘‘ نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ اس کے امدادی مراکز پر کوئی ہلاکت پیش نہیں آئی۔ جمعہ کو ادارے نے کہا کہ وہ اب تک غزہ میں 7 کروڑ سے زیادہ کھانے کی خوراکیں تقسیم کر چکا ہے۔ یہ ادارہ امریکی محکمہ خارجہ کے مالی تعاون سے کام کر رہا ہے، اور اپنے ماڈل کو "جنگ زدہ علاقوں میں امداد کی ترسیل کے طریقہ کار کی نئی صورت” قرار دیتا ہے۔اسرائیل اور امریکہ نے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی امدادی کارروائیوں کے دوران حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام لگایا ہے، جسے حماس نے مسترد کیا ہے۔اقوام متحدہ نے متعدد بار شکایت کی ہے کہ اسرائیلی فوجی حملوں، غزہ کے مختلف علاقوں میں داخلے پر اسرائیلی پابندیوں، اور مسلح گروہوں کی جانب سے لوٹ مار کے باعث اس کی انسانی امدادی کارروائیاں متاثر ہوئی ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ نے اپنی امدادی ترسیل کے نظام کی کامیابی پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے خاص طور پر اس وقت کامیابی ثابت کی جب مارچ تک دو ماہ کی جنگ بندی جاری رہی۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے جنگ بندی کے دوران روزانہ 600 سے 700 امدادی ٹرک غزہ پہنچائے، اور جب شہریوں کو یہ یقین ہو کہ امداد کا بہاؤ مستقل ہے تو لوٹ مار کے واقعات کم ہو جاتے ہیں۔