ہندوستان کے سیاسی منظرنامے میں اچانک پیدا ہونے والی ہلچل نے ایک بار پھر سب کو حیران کر دیا جب ملک کے نائب صدر جگدیپ دھنکڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ یہ خبر اگرچہ رسمی طور پر آئینی طریقہ کار کے تحت دی گئی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی وجوہات، اس کے سیاسی اثرات اور اس کے آئندہ مضمرات پر غور و فکر کرنا ازحد ضروری ہے۔
نائب صدر جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتے ہیں، جو راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر کام کرتے ہیں اور ایوان بالا کے وقار اور غیر جانب داری کے نگہبان سمجھے جاتے ہیں۔ جگدیپ دھنکڑ، جو کہ سابق گورنر اور بی جے پی کے تجربہ کار سیاستدان رہے ہیں، ان کی تقرری کو ابتدا ہی سے سیاسی طور پر کافی معنی خیز سمجھا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے دورِ نائب صدارت میں بارہا اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سخت لہجہ اختیار کیا، اور پارلیمانی روایات پر بھی کئی بار بحث و مباحثے کا موقعہ فراہم کیا ۔لیکن اس سب کے باوجود موصوف کو بغیر کوئی موقعہ دیئے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا اور دوسرے دن جب اجلاس شروع ہوا تو ایسا لگا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔کسی بی جے پی کے لیڈر نے ان کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا ۔جبکہ انہوں نے اپنے استعفے کی وجہ صحت کی خرابی بتائی تھی ۔لیکن آج کہیں سے کسی نے یہ تک نہیں کہا کہ امید ہے کہ وہ جلد ہی مکمل صحت یاب ہو کر عملی زندگی میں لوٹ آئیں۔کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اصل وجہ ان کے مستعفی ہونے کی وہ ہے ہی نہیں جو انہوں نے لکھا ہے ۔انہیں تو بی جے پی نے مستعفی ہونے پر مجبور کیا ۔اور بھلا نریندر مودی کے معتوب شخص کے حق میں کوئی کیونکر بیان دے سکتا ہے ۔اس استعفے کے بعد ایک بات کا اور اندازہ ہوا کہ بی جے پی کا میڈیا پر کس قدر کنٹرول ہے کہ پارٹی کے اندر چل رہی اتنی بڑی چپقلش کی کہیں سے کوئی خبر نہیں آئی ۔اور آئی بھی تو اس وقت جب دھنک نے خود ٹوئیٹ کیا ۔
استعفیٰ کی جو ممکنہ وجوہات ابھر کر سامنے آ رہی ہیں، ان میں سے ایک اہم پہلو دھنکڑ صاحب کی مبینہ ناراضگی اور اندرونی پارٹی کشمکش کو قرار دیا جا رہا ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ دھنکڑ نے حالیہ دنوں میں مرکزی حکومت کے بعض فیصلوں سے اختلاف ظاہر کیا تھا، خاص طور پر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے اور ایوان بالا میں قوانین کو جلد بازی میں منظور کرانے کے طریقہ کار پر۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے استعفے کا تعلق کسی بڑی آئندہ سیاسی حکمت عملی سے ہو، جیسا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور بی جے پی کے درمیان بڑھتی خلیج، یا مستقبل میں کسی بڑے عہدے یا نئے سیاسی مورچے کی تیاری۔ بعض تجزیہ کار تو یہ بھی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ جگدیپ دھنکڑ خود کو ایک "نظریاتی چہرہ” کے طور پر پیش کر کے آئندہ کی سیاست میں ایک خود مختار یا نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنا چاہتے ہیں۔
نائب صدر کے استعفیٰ سے جمہوریت کے اس ستون پر بھی سوال کھڑے ہوتے ہیں کہ کیا اب یہ آئینی عہدے بھی خالص سیاسی بن چکے ہیں؟ کیا راجیہ سبھا کے چیئرمین کا کردار محض حکومت کی ترجمانی تک محدود ہو چکا ہے؟ اور اگر ایسی صورتحال ہے، تو عوام کے منتخب اداروں کی آزادی اور خودمختاری کا کیا مستقبل ہو گا؟
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ صدر جمہوریہ اس استعفیٰ کو کس وقت اور کس لب و لہجے میں منظور کرتے ہیں، اور حکومت اس خالی جگہ کو کس طرح پُر کرتی ہے۔ کیا یہ فیصلہ قومی اتفاق رائے سے ہو گا یا محض عددی طاقت کے بل پر ایک اور سیاسی تقرری ہوگی؟دیکھنا یہ ہوگا کہ بی جے پی اس فیصلہ کے بعد بھی معمول کے مطابق اپنا کام کرتی رہیگی اور نریندر مودی بیرون ملک کا سفر جاری رکھینگے یا پھر سفر مسترد کر کے اس مسلہ کا کوئی حل نکالینگے جو ظاہر سی بات ہے کہ ایک بڑا مسلہ ہے ۔اور مبصرین کا اندازہ ہے کہ یہ آخری استعفے نہیں ہے ۔
جگدیپ دھنکڑ کا استعفیٰ محض ایک فرد کا عہدہ چھوڑنا نہیں، بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے ایک حساس لمحے کی نمائندگی ہے، جس پر صحافت، عوام اور آئینی اداروں کو سنجیدہ توجہ دینی ہوگی۔