دنیا میں مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ ہمیشہ سے پیچیدہ اور حساس موضوع رہا ہے۔ خاص طور پر جب بات یہودیوں اور صہیونیوں کی ہو، تو اکثر لوگ دونوں کو ایک ہی سمجھ بیٹھنے کی غلطی کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان دونوں میں فرق نہ صرف نظریاتی ہے بلکہ اس فرق کو سمجھے بغیر مشرق وسطیٰ کی سیاست اور فلسطین کا مسئلہ کبھی بھی مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکتا۔
یہودی ایک مذہب اور نسل کا نام ہے۔ ان کا آغاز حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ کے دور سے ہوتا ہے۔ یہ لوگ تورات کو الہامی کتاب مانتے ہیں اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل اسلام بھی اس قوم کو اہل کتاب مانتے ہیں اور بغیر مذہب تبدیل کئے ان کے یہاں شادی بیاہ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔دنیا بھر میں یہودی موجود ہیں، جن میں امریکہ، یورپ، روس اور اسرائیل کے یہودی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو مذہبی اصولوں کے پابند اور امن پسند بھی ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد جس قدر ہمارے نبی کی شدید مخالفت یہودیوں نے کی اتنی مخالفت عیسائیوں نے بھی نہیں کی ۔حالانکہ ان کی آبادی پوری دنیا میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ان دنوں ایک بڑی غلط فہمی یہ بھی پروان چڑھ گئی ہے کہ ہر یہودی کو ہم صہیونی سمجھ بیٹھتے ہیں اور ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ نہ تو ہر صہیونی یہودی ہوتا ہے اور نہ ہی ہر یہودی صہیونی ۔ٹھیک اسی طرح جیسے ہمارے ملک میں سناتن یا ہندو مذہب ہے جو قبل مسیح سے رائج ہے ۔لیکن آر ایس ایس ایک سیاسی تحریک ہے جس کا آغاز 1925 میں ہوا اور اس کا مقصد بھارت کو ہندو راشٹرا بنانا ہے لیکن گذشتہ ایک صدی کی محنت کے باوجود آر ایس ایس ہندوستان کو ہندو راشٹرا نہیں بنا سکی اور آج بھی ہمارا آئین سیکولر اور جمہوری ہے ۔حالانکہ ملک میں اکثریت ہندوؤں کی ہے پھر بھی آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے نظریہ سے دس فیصد لوگ بھی اتفاق نہیں کرتے ۔ ٹھیک اسی طرح صہیونیت ایک سیاسی تحریک ہے جس کا آغاز 1897 میں یورپ میں ہوا۔ اس تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل تھے جنہوں نے اعلان کیا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے فلسطین کو چُنا گیا۔ صہیونیوں کا مقصد مذہبی نہیں بلکہ سیاسی، عسکری اور توسیع پسندانہ ہے۔ صہیونی تحریک میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مذہب سے دور ہیں، بلکہ بعض تو لا مذہب (atheist) ہیں، مگر اسرائیل کی ریاست کو "یہودیوں کا مقدس حق” قرار دیتے ہیں۔آج دنیا کا ہر وہ شخص جو اسرائیل کی مخالفت کرتا ہے، فوراً "یہودی دشمنی” (antisemitism) کے الزام کی زد میں آ جاتا ہے۔ یہ ایک منصوبہ بند پروپیگنڈہ ہے جس کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے یہودی خود بھی صہیونیت اور اسرائیل کے موجودہ رویے کے خلاف ہیں۔ نیچرئی کارتا (Neturei Karta) جیسے کئی مذہبی یہودی گروہ ہیں جو اسرائیل کے قیام کو "خدائی حکم کے خلاف” سمجھتے ہیں۔آج اسرائیل کی قیادت مکمل طور پر صہیونی نظریات پر عمل پیرا ہے۔ اسرائیل کے موجودہ صدر آئزک ہرزوگ مذہباً یہودی ضرور ہیں، مگر ان کی سیاست، زبان، اور عمل مکمل طور پر صہیونی ایجنڈے کے تحت ہے۔ ان کے والد اور خاندان بھی اسرائیلی ریاست کے اولین معماروں میں شامل رہے ہیں۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ یہودیوں اور صہیونیوں کے فرق کو سمجھیں اور عام دنیا پر بھی یہ فرق واضح کریں۔ ہماری مخالفت مذہبِ یہود سے نہیں بلکہ ان سیاسی صہیونی نظریات سے ہے جو فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر زمین پر ناجائز قبضہ چاہتے ہیں۔ اگر دنیا کو یہ سمجھا دیا جائے کہ ہر یہودی صہیونی نہیں، تو ہم اپنے موقف میں اخلاقی اور فکری برتری حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم نعرہ بازی سے آگے بڑھ کر علمی، نظریاتی اور فکری بنیادوں پر جدوجہد کریں۔ صہیونیت ایک سیاسی استعمار ہے، اور اسے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر پیش کرنا سراسر فریب ہے۔ دنیا کو اس فریب سے آگاہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ٹھیک اسی طرح آر ایس ایس بھی ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو وطنیت ،مذہب اور تہذیب کے نام پر ملک کے سیدھے سادے ہندوؤں کو ورغلاتی ہے اور یہ کوشش کرتی ہے کہ ملک کے تمام ہندوؤں کی وکیل بن جائے ۔لیکن وہ گذشتہ ایک صدی میں بھی اس میں کامیاب نہیں ہوئی ہے ۔ ہم آج تک عام ہندو اور آر ایس ایس کے نظریہ کو ماننے والے ہندو میں فرق نہیں کر پاتے ۔اور ایک بڑی غلطی کرتے ہیں ۔