دمشق :اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے پیر کے روز دمشق میں شام کی نئی انتظامیہ کے کمانڈر انچیف احمد الشرع کے ساتھ بات چیت کی۔اردن کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "نائب وزیر اعظم اور وزیر برائے امور خارجہ اور امور خارجہ ایمن الصفدی، پیر کودمشق کا دورہ کریں گے اور الشعراء اور متعدد شامی حکام سے ملاقات کریں گے”۔
آٹھ دسمبر کو صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اردن کے کسی اعلیٰ عہدیدار کا شام کا یہ پہلا دورہ ہے۔
اردن کی شام کے ساتھ زمینی سرحد 375 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ عمان کا کہنا ہے کہ اس نے 2011ء میں شام میں تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے 1.3 ملین سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اردن میں تقریباً 680,000 شامی مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔گذشتہ جمعرات کو اردنی وزیر داخلہ کے مطابق اسد کی حکمرانی کے خاتمے کے بعد سے 7,250 شامی اردنی سرحد پار کر کے اپنے ملک واپس آ چکے ہیں۔
14 دسمبر کو اردن نے شام پرایک اجلاس کی میزبانی کی جس میں اقوام متحدہ کے نمائندے کے علاوہ آٹھ عرب ممالک، امریکہ، فرانس، ترکیہ اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
شاہ عبداللہ دوم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اردن شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ان کی "مرضی” کا احترام کرتا ہے۔دریںاثنا دمشق کے صدارتی محل میں ہونے والی اس ملاقات میں ہیئۃ التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) پر عائد عالمی پابندیاں ختم کرنے پر زور دیا گیا۔
خبر ایجنسی کے مطابق سعودی وفد سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
دونوں ممالک کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم ملاقات میں شام میں سعودی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے اور مستقبل کی شامی حکومت کو سعودی حمایت کے معاملات پر بات چیت کی گئی۔
دریں اثناء ترک وزیرِ خارجہ حاکان فدان نے بھی دمشق میں احمد الشرح سے ملاقات کی اور شام کی تعمیرِ نو میں مدد فراہم کرنے اور سیاسی عبوری عمل میں تعاون کا وعدہ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ شام پر عائد تمام پابندیاں فوری طور پر ختم کی جائیں تاکہ ملک کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکے، احمد الشرح نے بھی عالمی برادری سے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے شام کا نیا آئین تشکیل دینے، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، پناہ گزینوں کے مسائل، اسرائیل کی خلاف ورزیوں اور کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کے مسئلہ پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔