جمہوریت کی بنیاد اظہارِ رائے کی آزادی اور شفاف انتخابات پر ہے، لیکن جب کوئی صحافی عوامی مفاد میں حقائق کو اجاگر کرے اور اس کے جواب میں اس پر ایف آئی آر درج کی جائے تو یہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ تشویشناک بھی۔ بہار میں ووٹر لسٹ کی تفتیش کے دوران سامنے آنے والی مبینہ خامیوں کو منظرِ عام پر لانے والے سینئر صحافی اجیت انجم پر ایف آئی آر اسی افسوسناک روش کی ایک تازہ مثال ہے۔
اتفاق سے یہ واقعہ اس ریاست میں رونما ہوا ہے جس ریاست کو لوگ "پرجا تندرستی کی جننی "قرار دیتے ہیں ۔اور فی الوقت اس بہار کے وزیر اعلی ایک ایسے لیڈر ہیں جن کی سیاسی پرورش "جے پی آندولن "میں ہوئی ہے ۔ایک ایسا آندولن جس کی باگ ڈور جئے پرکاش نارائن کے ہاتھوں میں تھی اور جس آندولن کا مقصد اس وقت کی کانگریسی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے عہدے سے ہٹانا تھا کیونکہ انہوں نے آئینی اقدار سے بغاوت کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دیا تھا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک ان کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آیا تھا ۔اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عام انتخاب میں نہ صرف یہ کہ اندرا گاندھی کو شکست فاش ہوئی بلکہ ان پر مقدمہ قائم ہوا اور انہیں جیل بھی جانا پڑا ۔آج بھی بھارت کی سیاست میں اس دور کو دور سیاہ کہا جاتا ہے اور خود بی جے پی جس کی معاونت سے بہار کی سرکار قائم ہے وہ ایمرجنسی کی برسی منائی ہے اور اندرا گاندھی کو آئین کی مجرم قرار دینے کے لئے ملک کے کونے کونے میں سیکڑوں جلسہ کرتی ہے ۔تاکہ نئی نسل کے ذہن میں ایمرجنسی کی یادیں تازہ ہو جائیں ۔لیکن خود وہ پارٹی یا اس کی سرکار مسلسل آئینی اقدار کی دھجیاں اڑا رہی ہے ۔ابھی حال ہی میں ملک کے ایک سینئر صحافی نے جب بہار میں انتخابی فہرستوں کی تفتیش کے دوران ہونے والی بے ضابطگیوں کی ویڈیو رپورٹنگ کی تو ان پر ایف آئی آر درج کر کے انہیں ان کے کام سے روکنے کی کوشش کی گئی جو کسی بھی جمہوری ملک میں آئینی حقوق کی خلاف ورزی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
اجیت انجم نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب کے ذریعے انتخابی فہرستوں میں بے ضابطگیوں کی جانب اشارہ کیا۔ اُن کے انکشافات نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر کچھ علاقوں میں اقلیتی اور پسماندہ طبقات کے ووٹروں کے نام ہی کیوں حذف کیے جا رہے ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا کوئی منظم چال؟ ان سوالات پر غور کرنے کے بجائے ریاستی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے صحافی پر قانونی کارروائی کرنا ایسا تاثر دیتا ہے کہ جیسے سچائی سے منہ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔
اگر صحافی نے غلط بیانی کی ہوتی، ثبوتوں کے بغیر الزامات عائد کیے ہوتے، یا نفرت انگیزی کی ہوتی تو ایف آئی آر کسی حد تک قابلِ فہم ہوتی، مگر جب سوال صرف شفافیت اور جواب دہی کا ہو، اور اس کا جواب دھمکی یا مقدمے کی صورت میں دیا جائے، تو یہ صرف صحافی پر حملہ نہیں بلکہ جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔
بہار جیسے حساس اور سیاسی طور پر اہم ریاست میں ووٹر لسٹ کی درستگی محض تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ عوامی اعتماد سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اگر کسی صحافی نے کسی خامی کی نشان دہی کی ہے تو اس پر شفاف جانچ ہونی چاہیے، نہ کہ ان کو خاموش کرانے کی کوشش۔ ووٹروں کی فہرست میں کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ صرف الیکشن کے تقدس کو پامال کرتی ہے بلکہ ایک بڑے طبقے کو جمہوری عمل سے محروم بھی کر سکتی ہے۔
لہٰذا، سوال یہ نہیں کہ اجیت انجم نے کیا کہا، بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ سچ کہہ رہے ہیں؟ اور اگر کہہ رہے ہیں، تو کیا اس سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ ہمارے اداروں میں باقی ہے؟
میرا آج کا یہ اداریہ دراصل ایک مطالبہ ہے: شفافیت کا، جواب دہی کا، اور اس صحافی کے ساتھ انصاف کا جس نے صرف وہی کیا جو ایک سچے صحافی کا فرض ہے — عوام کو سچ دکھانا اس صحافی کی ذمہ داری بھی ہے ۔جس ذمہ داری سے ملک کے بیشتر صحافی بھاگ رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو تو چاہئے تھا کہ وہ ایسے صحافی کو انعام سے نوازتی کہ اس نے ان کی خامیوں کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ ثبوت بھی پیش کئے ۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ان الزامات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لے اور اس پورے معاملے میں اپنی ساکھ بحال کرے، بجائے اس کے کہ سوال اٹھانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔