سید مجاہد حسین
نئی دہلی،30؍مئی،سماج نیوز سروس:راجستھان پولیس کی طرف سے بھیوانی قتل کیس میں داخل کی گئی چارج شیٹ کے مطابق، 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی میںجنید اور ناصرکی لاشیں ان کی ہی بولیرو میں ملنے سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے، انہیں گائو رکھشکوں کے ذریعہ نوح ضلع کے ایک پولیس سٹیشن لے جایا گیا تھا،جس نے انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ ان کا اس سے کوئی لینا دینانہیں ہے۔راجستھان کے بھرت پور ضلع کے گھاٹمیکا کے رہنے والے جنید اور ناصر 15 فروری کی صبح لاپتہ ہو گئے تھے۔ اگلی صبح ان کی لاشیں ملی تھیں۔ ان کے رشتہ داروں نے الزام لگایا تھا کہ انہیں بجرنگ دل کے ارکان نے اغوا کرلیا تھا۔دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق،بھرت پور کے کاماں کی ایک عدالت میں انہیں 16 مئی کو دائر چارج شیٹ کے مطابق راجستھان کے پیروکا میں جانوروں کی اسمگلنگ کے شبہ میں ناصر اور جنید کو نشانہ بنایا اور ان پر حملہ کردیا تھا۔چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ لیکن ایک بار ملزمان رنکو سینی (32)، مونو رانا عرف نریندر کمار (31) اور گوگی عرف مونو (27) کو یہ معلوم ہوا کہ وہ دونوں مویشی نہیں لے جا رہےتھے تو وہ انہیں فیروز پور جھرکہ پولیس اسٹیشن لے گئے۔چارج شیٹ میں مزید کہا گیا ہے،’’پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے متاثرین کو یہ کہتے ہوئے لوٹا دیا کہ یہ کیس ہریانہ پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے اور گائے کی اسمگلنگ کے ثبوت کی کمی ہے‘‘۔جب نوح کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ورون سنگلا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں اس کیس میں مزید ملزمان کے بیانات ملیں گے ہم اسپر غور کریںگے۔ اگر کسی افسر مجرمانہ طور سے ملوث پایا گیا تو ہم مناسب کارروائی کریں گے۔ایس پی نے متاثرین کے زخمی ہونے کے باوجود تھانے سے واپس لوٹائے جانے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
چارج شیٹ میں تین ملزمین کے علاوہ،بجرنگ دل کے رکن مونو مانیسر سمیت 27 مشتبہ افراد کی فہرست دی گئی ہے، جو سبھی فی الحال فرار ہیں۔واقعات کی ترتیب کے مطابق، چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ جنید اور ناصر کے فون لوکیشن کی بنیاد پر، وہ آخری بار 15 فروری کو صبح 5:20 بجے راجستھان کے نوگاون میں پائے گئے تھے۔ یہ مرکزی ملزم رنکو سینی کا آخری ٹاور لوکیشن بھی تھا۔اس میں کہا گیا ہے کہ گاؤ رکھشکوں نے پیروکا میں جنید اور ناصر کی بولیرو کو روکا اور ان پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد اس نے سینی کو فون کیا، جس نے ان سے دونوں کو منڈکا بارڈر لے جانے کے لیئے کہا۔ یہاں سائیں بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔چارج شیٹ میں کہا گیا ہے، ’’متاثرین سے گائے کی مبینہ اسمگلنگ کے سلسلے میں دوبارہ پوچھ گچھ کی گئی، لیکن کوئی جواب نہ ملنے اور مویشیوں کے ساتھ کوئی گاڑی نہ ملنے پر، اس بار سینی کے ذریعہ ان کے ساتھ دوبوارہ مار پیٹ کی گئی‘‘۔اس میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی اسکارپیو میں خون کے دھبے پائے گئے، جو متاثرین کے خون کے نمونوں سے مماثلت رکھتے تھے ۔چارج شیٹ کے مطابق، ایک بار جب متاثرین پولیس اسٹیشن سے واپس آئے، گاؤ رکھشکوں نے انہیں لے جانے، قتل کرنے اور تمام ثبوتوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔سینی کو 17 فروری کو گرفتار کیا گیا تھا، باقی دو کو 13 اپریل کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعات میں اغوا، غلط قید، قتل، ثبوت کو تباہ کرنا، مجرمانہ سازش اور فسادات شامل ہیں۔چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ سینی کی پوچھ گچھ، واٹس ایپ چیٹ اور سی ڈی آر (کال ڈیٹیل ریکارڈ) سے واضح ہے کہ ان کے پاس جنید اور ناصر کے بارے میں خفیہ معلومات تھیں۔بتایا گیا ہے کہ انہیں گائے کے محافظوں کی جند، بھیوانی اور کرنال ٹیم کے ساتھ ساتھ میوات کی مقامی ٹیم سے گائے کے اسمگلروں کے راستے کے بارے میں معلومات ملی تھیں۔ 14 اور 15 فروری کی درمیانی رات کو سائیں کی ہدایت کے مطابق ملزمان دو گروپوں میں بٹ گئے اور جنید اور ناصر کو پیروکا میں روکنے کے لیے ناکہ بندی کر دی۔
چارج شیٹ میں گو رکھشا دل اور پولس کے درمیان تعلق کی بات بھی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہریانہ پولیس ایسے گاؤ ررکھشک ٹیموں کی مدد سے گائے کے اسمگلروں کو گرفتار کرتی ہے اور کارروائی کرتی ہے۔ اس دوران استعمال ہونے والی گاڑیاں بھی گو رکھشا دل کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کے پاس لائسنس یافتہ ہتھیار ہوتے ہیں جب انہیں گائے کی اسمگلنگ کی اطلاع ملتی ہے تو مختلف ٹیمیں ایک دوسرے سے رابطہ کرتی ہیں اور ایک جگہ پر ملتی ہیں اورا سمگلروں کو پکڑنے کے لیے مختلف گاڑیوں میں اکٹھے جاتی ہیں۔
جنید اور ناصر چچا زاد بھائی تھے اور راجستھان کے ضلع بھرت پور کے گاؤں گھاٹمیکا میں رہتے تھے، جہاں ان کے لیے انصاف کے مطالبے کیساتھ کئی ہفتوں تک احتجاج ہوئے تھے۔ جنید اور ناصر 14 فروری کی صبح ایک بولیرو کار میںاپنے رشتہ دار سے ملنے گھر سے نکلے تھے اورپھر کبھی نہیں لوٹے۔ان کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ بجرنگ دل کے ارکان نے جنید اور ناصر کا قتل کردیا۔ ان کی جلی ہوئی لاشیں ایک دن بعد 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی ضلع کے لوہارو میں ملی تھیں۔خاندان والوں نے ایف آئی آر میں الزام لگایا تھا کہ اس واقعہ میں بجرنگ دل کے ارکان ملوث تھے۔ بعد میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزمان ہریانہ پولیس کے مخبر تھے۔ ہریانہ بھر میں ہندوتوا گروپوں نے مونو مانیسر کی حمایت میں ریلی نکالی، اور پولیس کو ان کی گرفتاری کے خلاف دھمکی دی تھی۔ وہیںاتوار (21 مئی) کو راجستھان پولیس نے اعلان کیا تھا کہ اس نے ایف آئی آر میں 21 لوگوں کو ملزم کے طور پر نامزد کیا ہے۔