وزیراعظم نریندر مودی صاحب نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بار (2024) کے الیکشن میں این ڈی اے 400 سے پار ہوگا اور بھاجپا 370سیٹوں پر آئے گی۔ مطلب یہ ہوا کہ این ڈی اے کو 400 سے زیادہ سیٹیں ملیں گی، جس میں بھاجپا اکیلے 370 پر ہوگی۔ پچھلے (2019) چنائو میں اسی طرح سے یہ نعرہ لگایا گیا تھا کہ ’’اب کی بار 300 سے پار‘‘۔ اس نعرے کو بھی لوگ بے معنی سمجھ کر یہی کہہ رہے تھے کہ مودی سرکار دوسری مرتبہ نہیں آئے گی۔ ہمیں یاد آتا ہے کہ ماحول بھی مودی مخالف لگ رہا تھا، لیکن 2019 میں تو واقعی بھاجپا نے 303 سیٹ لاکر دکھادیا۔ اس بار ماحول تو ایسا ہوگیا ہے کہ لگتا ہے جیسے بھاجپا کو ہرانا ہی مشکل ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمیں بہت حکمت سے ووٹوں کی سیاست کرنی ہوگی۔ ایک بات تو یہ طے ہے کہ مودی سرکار کو لوٹ کر آنا ہی ہے، چاہے اس کی شکل جیسی بھی ہو۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جب انہوں نے این ڈی اے کو 400 سے پار ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو اسے چیلنج نہ کیا جائے، بلکہ این ڈی اے کا توازن ہی بدل دیا جائے اور وہ طریقہ اس طرح سے ہوگا کہ 400 میں سے 200 سیٹوں پر ان علاقائی پارٹیوں کو جتانے کی مہم چلائی جائے جو این ڈی اے کے ساتھ کبھی رہے ہوں۔ دیکھئے اس وقت ملک میں بھاجپا کی سرکار چل رہی ہے جبکہ نام تو این ڈی اے کا ہی لیا جارہا ہے۔ 1999 سے لے کر 2004تک میں این ڈی اے کی ہی سرکار تھی، لیکن علاقائی پارٹیوں کا دبدبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم باجپئی صاحب سخت فیصلے لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ابھی مودی جی نے کسی پروگرام میں یہ کہا کہ تیسرے ٹرم میں وہ اوربھی بڑے فیصلے لیں گے۔ ان کے اس مزاج یا مہم کو یکایک زیر کردیا جائے یہ موقع آج کے ماحول میں اپوزیشن کے ہاتھوں میں بھی نہیں رہا ہے۔ کیوں کہ بھاجپا بھی تو چاہے گی کہ مذہبی بنیاد پر نفرت کے بنے بنائے ماحول کو وہ مزید گرم کرکے رکھے اور اس میں ایکشن و ری ایکشن کی پالیسی کو چنائو کے آخری دن تک جاری رکھنے کا کام کرے گی۔ اور دوسری طرف سے اپوزیشن والے جتنا اسے گرم کریں گے اتنا ہی وہ اقلیتوں کے ساتھ چھیڑخوانی اور تشدد جاری رکھے گی۔ ایودھیا، ابوظہبی اور قطر کے معاملات کو لے کر جتنا ملک کا ماحول بنایا جائے گا، اتنا ہی مودی سرکار کے لوٹنے کا چانس برقرار رہے گا۔ برادر وطن کی ذہنیت اتنی اندھ بھکت کردی گئی ہے کہ مرکز میں مودی جی کو ہی دیکھنا چاہتی ہے، چاہے مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کتنی ہی بڑھ کیوں نہ جائے۔ ایسی صورت حال میں ہمیں اسی حکمت سے چلنی ہوگی کہ مودی کی سرکار کو واجپئی کی طرح والی واجپئی سرکار میں کیسے پہلے تبدیل کی جائے۔ اس کے لیے ہمیں بھی سیکولر دلوں کی اندھ بھکتی سے خود اپنی سماج کو نکالنا ہوگا ۔اس کے لیے فی الوقت میری رائے یہ ہے کہ ملک بھر میں جتنی بھی علاقائی پارٹیاں ہیں انہیں اپنے ووٹوں سے مضبوط رکھیں، انہیں ہارنے نہیں دیں۔ اگر یہ پارٹیاں ہار جائیں گی تو پھر ’’ٹوپارٹی سسٹم‘‘ بھارت میں بھی جڑپکڑ لے گا جو ملک اور سماج، بالخصوص کمزور طبقوں کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا ہے۔ کیا بھاجپا اور کانگریس کی بیان بازیوں سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ دونوں قومی سیاسی پارٹیاں بھی چاہتی ہیں کہ ملک میں ’’ٹو پارٹی سسٹم‘‘ کا ہی دور آجائے، تاکہ کبھی گیند ان کے پالے میں رہے تو کبھی ان کے پالے میں، اور علاقائی پارٹیوں کا وجود ختم ہوجائے ۔ہماری حکمت یہی ہونی چاہئے کہ جہاں یہ دونوں پارٹیاں چنائو میں آمنے سامنے ہوں وہاں اکثریت سماج ہی فیصلہ کرے کہ کیا ہونا چاہئے، لیکن جن بھی صوبوں میں جو علاقائی پارٹیاں مضبوط رہی ہوں انہیں ہارنے نہ دیا جائے، تاکہ نہ صرف ان کا وجود قائم رہے بلکہ ان کا صوبوں پر سیاسی غلبہ بنارہے۔ ان علاقائی پارٹیوں کے مضبوط رہنے کا یہ اثر رہے گا کہ جس بھی قومی سیاسی پارٹی کی سرکار مرکز میں رہے وہ ہمیشہ مجبور رہے کہ علاقائی پارٹیوں کے بغیر سرکار نہ چلاسکیں۔ یاد کیجئے کہ اکثریت میں جس کی بھی سرکار رہی ہو چاہے وہ نہرو جی رہے ہوں یا اندرا گاندھی یا راجیو گاندھی یا پھر نریندر مودی ان کے فیصلے سخت اور من مانی رہے ہیں۔ اس کے برعکس واجپئی کی این ڈی اے اور سردار من موہن سنگھ کی یوپی اے (1) میں مرکزی سرکار کے فیصلے بے جا نہیں دیکھے گئے تھے لیکن پھر وہی یوپی اے دوسری مرتبہ لوٹ کر آئی اور کانگریس کو پہلے سے زیادہ سیٹیں 2009 میں مل گئیں، یعنی 206 سیٹیں ملنے کے بعد اس کے بھی فیصلے من مانی والے اور بے تکے ہونے لگے تھے اور جس کا خمیازہ بھی انہیں 2014 میں جھیلنا پڑا تھا۔
اخذ یہ ہے کہ ایودھیا کے بعد کے بھارت، جس میں 22؍جنوری 2024 سے ہم داخل ہوگئے ہیں، اس میں علاقائی پارٹیوں کو نہ صرف زندہ رکھنا چاہئے، بلکہ مضبوط رکھنا ضروری ہے، تاکہ ملک وسماج بالخصوص اقلیتوں کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی فارمولے پر سالوں سال گامزن رہنے کی ضرورت ہے ۔کیوں کہ یہی فارمولہ بھارت کے آئین اور بھارت کی جمہوریت کو قائم ودائم رکھ سکے گا ورنہ دیگر سیاسی باتیں و وعدے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔