بیروت (ہ س)۔ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے حزب اللہ کے ایک سینئر ذمے دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر اسرائیل جنوبی لبنان سے اپنی فوج نکال کر حملے کرنا روک دے … تو تنظیم اپنے ہتھیاروں کے مستقبل کے حوالے سے لبنانی صدر جوزف عون سے بات کرنے کے لیے تیار ہے۔ادھر تین لبنانی سیاسی ذرائع نے مذکورہ ایجنسی کو بتایا کہ صدر عون عنقریب حزب اللہ کے ساتھ اس کے ہتھیاروں کے حوالے سے بات چیت شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔عون جنھیں امریکا کی حمایت حاصل ہے، جنوری میں صدر منصب سنبھالنے پر اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہتھیاروں کا رکھنا لبنانی ریاست کے ساتھ مخصوص ہو گا۔اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے دوران میں جنوبی لبنان میں اپنی زمینی فوج بھیجی تھی۔ بعد ازاں بڑی حد تک اس کا انخلا عمل میں آ گیا تاہم رواں سال فروری میں اسرائیل نے پہاڑی مقامات سے کوچ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ حتمی ہدف یہ ہے کہ سیکورٹی کی صورت حال بہتر ہوتے ہی ان علاقوں کو لبنانی فوج کے حوالے کر دیا جائے گا۔گذشتہ برس نومبر میں فائر بندی تک پہنچنے کے باوجود اسرائیل نے فضائی حملوں کے ذریعے حزب اللہ پر دباؤ جاری رکھا۔ اسی طرح واشنگٹن نے حزب اللہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ہتھیاروں سے دست بردار ہو جائے۔ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے پیر کو بتایا کہ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ بہت سی مسلح جماعتیں پہلی مرتبہ اپنے ہتھیاروں سے دست بردار ہونے کی تیاری میں ہیں۔ اس کا مقصد ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کشیدگی کے خطرے سے گریز کرنا ہے۔حزب اللہ تنظیم طویل عرصے سے اس موقف پر قائم ہے کہ اس کے ہتھیار ملک کے "دفاع کے لیے ضروری” ہیں۔حزب اللہ پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تنظیم کے پاس ہتھیاروں کے ہونے سے ریاست سبوتاڑ ہوئی اور لبنان کو جنگوں میں گھسیٹا گیا”۔امریکا کی وساطت سے طے پانے والے فائر بندی کے معاہدے میں یہ مذکور ہے کہ لبنانی فوج تمام غیر قانونی عسکری تنصیبات کو ختم کر کے تمام اسلحہ برآمد کرے گی۔ یہ کارروائی سرحد سے تقریبا 20 کلو میٹر دور دریائے لیطانی کے جنوب میں واقع علاقوں سے شروع ہو گی۔ذرائع کے مطابق لبنانی صدر جوزف عون کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کا معاملہ مکالمے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے کیوں کہ ان کی رائے میں بزور طاقت حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ تنازع کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔دوسری جانب لبنان کے لیے امریکی خاتون ایلچی مورگن اورٹاگوس جنھوں نے ہفتے کے اختتام پر بیروت کا دورہ کیا، ان کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کا موقف حزب اللہ اور دیگر مسلح جماعتوں کے ہتھیار لینے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ چھ اپریل کو ایک اخباری انٹرویو میں مورگن نے مزید کہا کہ اسے جلد از جلد انجام دیا جانا چاہیے، توقع ہے کہ لبنانی فوج اس مشن میں شامل ہو گی۔لبنانی فورسز سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر کمال شحادہ کے مطابق حکومت کے کئی وزراء ہتھیار حوالے کیے جانے کا ٹائم ٹیبل چاہتے ہیں۔ شحادہ نے کہا کہ اس میں چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں لگے گا۔