شعرو ادب سے بے انتہا دلچسپی کسی کو بھی بڑا فنکار بنا دیتی ہے، مگر دیکھا گیا ہے وہ فنکار اپنی مادری زبان میں ہی مقبول ہو پاتا ہے۔ آپ محو حےرت ہوں گے کہ وریندر کمار ہندی سے زیادہ اردو شعرو ادب کی محفلوں میں پسند کیئے گئے۔وریندر کمارسے وریندر قمر بنے فنکار کی زندگی کا کوئی حصہ کسی بھی شاعر کے کلام یااس کے لہجے وانداز کی بنیاد پر مرعوبےت کے قرےب سے ہو کر نہیں گزرا،ہاں داغ دہلوی کی شاعری اور ان کی زبان سے ضرور وریندر قمر متاثر تھے ۔18ستمبر1958کوجنوبی دہلی میں بدرپور گاؤںکے بندل گھرانے ،ہندی ماحول میں ایک بچہ کی پیدائش ہوئی ،اس بچہ کانام وریندر کمار بندل رکھا گیا۔، والد دولت رام ٹھکیدار تھے اور دوکان دار بھی تھے، دودھ گھی کی ضرورت پوری کرنے کےلئے مویشی پالے جانے کا چلن رواےتی تھا ۔اس بچہ کو بارہ سال کی عمر میں شاعری کی فہم قدرت کی طرف سے ملی تو اس نے ڈبلو کے صدیقی کی زبان سے پہلے پہل جب یہ شعر
ہوا گر شوقِ طلب ڈھونڈنے والوں میں ،تو پھر
سیکڑوں منزلیںراہوں کے غباروں میں ملیں
سنا تو شاعری کا شوق پروان چڑھا،مگر اردو زبان نہ آنے کی بنیاد پر اردو زبان کاسیکھنا بڑا مسئلہ تھا۔اسی دوران موسےقےت کی جانب وریندر کمار کی طبیعت مائل ہوگئی۔بعد میں کچھ دنوں کے بعد یہی موسیقےت کاذوق سامان شاعری میں بدلا۔کیونکہ سبھی جانتے ہیںموسیقی یعنی غنائےت اور شاعری کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ وریندر کمار کے موسیقی میں استاد بلال احمد خاں تھے ،بلال احمد خاں دہلی گھرانے کے معروف شخص تھے۔آپ قوالی کی دنیا کے نہ صرف دہلی بلکہ ہندو پاک اور ساری دنیاکے بے تاج بادشاہ تھے۔ آپ کے اعلیٰ فن کی قدردان دنیا کے دور دراز خطوں اور یوروپ میں بھی پائے جاتے تھے ۔ان سے باقاعدہ وریندر کمار نے موسیقی سیکھی اورایک وقت وہ بھی آیا کہ موسیقی کے لئے بھی اردو کا سیکھنا ان پر لازم ہوگیا۔اردو شاعری کاذوق وشوق جس بچے کو بارہ برس کی عمر سے لگا ہو ،جس نے ایک زمانے تک ساز وسنگےت کی محفلوں میں اپنا وقت بتاےا ہو،جس کاذریعئہ معاش،یا شوق سا ز وآواز کی محفلیں بنی ہوں وہ شاعری میں بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔شاعری کی سوجھ بوجھ اور اصلاح شہباز ندیم ضیائی سے حاصل کی،اردو زبان اپنے گھر کے آگے بدرپور کی شاہی جامع مسجد کے امام اور متولیان سے رفتہ رفتہ سیکھی اوراس وقت شاعری کے متعلق صلاح ومشورہ گلشن چاندپوری،عبد الرحمن منصور،عمر بچھرایونی،خواب افلاکی بچھرایونی،اور درد دہلوی سے بھی کیئے ،کچھ دنوں بعد سبھی سے کنارہ کرلیا۔سال 2022کے رخصت ہونے تک عمر بچھرایونی ،گلشن چاندپوری، خواب افلاکی بچھرایونی ان کے استاد شہباز ندیم ضیائی دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔وریندر قمر بدرپوری کی طبیعت میں خود داری انتہائی طور سے بسی تھی،انہوں نے اپنی انا کا سودا کبھی گوارا نہیں کیا۔اپنے مزاج سے الگ کی کسی نشست میں وہ جانا پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ایک دفعہ کاواقعہ ہے،آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے ریکارڈنگ کرنے والوں نے کال دی،اوردو ہزار روپیہ اعزازیہ دےنے کی اطلاع دےتے ہوئے کہا وہ آپ ،حبیب سیفی،اور ایک شاعرہ کو ہم نے مدعو کیا ہے۔لہذا وقت پر تشریف لائےے گا،وریندر قمر نے برجستہ کہا ایسی گرمی میں بھئی میں تو نہیں آسکتا ،اپنے پیسے اپنے پاس رکھ،میں نہیں آؤں گا۔ اس کے بعد آل انڈیا ریڈیو کے اس آفےسر کی شکاےت مجھ سے کی ،نیز آفےسر نے بھی مجھے شرمندہ کیا ، اور کہا کہ کیسے کیسے آدمیوں کے نام وپتہ لکھوادےتے ہو۔ اپنے آرام میں خلل واقع کرنے سے تعبیر کررہا ہے میری دعوت کو یہ شاعر ،میں ہی کیا بیشتر حق پسند لوگ اس بات کا اعتراف کریں گے کہ مزاج سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کے وریندر قمر بدرپوری ذرا قائل نہ تھے۔
زندگی کے آخری چار پانچ برسوں میں شاعروں کے منافقانہ رویہ سے انہیں بہت تکلیف رہی۔خاص طور سے استاد شہباز ندیم ضیائی کی موت کے بعداپنے استاداوردہلی وملک بھر میںمعروف عالمی سطح کے بہترین شاعر شہباز ندیم ضیائی کے تعلق سے فصیل بند شہر کے شعرا کا طرز سلوک اور دہلی و این سی آر کے ادیبوں شاعروں کی شاطرانہ چالوں،نیز حرکتوںسے وریندر قمر بدرپوری کو بہت زیادہ صدمہ پہنچا،اسی لئے انہوں غالب اکیڈمی نظام الدین دہلی سے بھی دوری اختےار کرلی تھی،ہاں مگر اردو اکادمی دہلی سے وہ مرتے دم تک جڑے رہے ۔ میری ناقص معلومات کے مطابق کچھ شاگرد وشاگردائیں بھی بنائیں ،جن میں سے ہندی کے منچوں پر دکھائی دےنے والے ناگیش چندرا، تارا چند شرما نادان قابل ذکر ہیں۔
کسے خبر تھی کہ بندل گھرانے میں پیدا ہونے والا ٹھیٹ ہندی ماحول میں پرورش پانے والا بچہ بڑا ہو کر شعرو ادب کی دنیا کا قمر بن جائے گا۔سہ لسانی ادبی تنظیم محفلِ گنگ وجمن ( رجسٹرڈ) کی ماہانہ نشستو ں میں بلاناغہ ایک عرصہ تک شرکت، حلقہ تشنگانِ ادب کی نشستوں میں پابندی سے اپنی حاضری درج کرانے والا یہ شاعر اردو اکادمی دہلی کا بھی مقبول وپسندیدہ شاعر رہا ہے۔وریندر قمر بدرپوری کو کئی تنظیموں کی طرف سے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔جن میں،بزم شیدائے ادب متھرا یوپی،پروفےسر نارائن سنگھ غافل کی یاد میں قائم کی گئی تنظیم غافل ایکتا سوسائٹی ،بزم سخن دہلی ، ادبی کنج فرید آباد قابل ذکر ہیں ،جنہوںنے آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے آپ کی اردو شناسی کی بھی تعریف کی ۔گذشتہ چھ مہینے سے بستر پر رہے ،اس سے قبل ایمس اسپتال میں مہینوں زیر علاج رہے وریندر کمار قمر بدرپوری 17جنوری2023 کوانتقال اور ان کی آخری رسومات کا مجھے علم نہ ہوپانا میرے لئے انتہائی غم وافسوس کا معاملہ اور میری کم نصیبی ہے۔ لیکن میں کر بھی کیا سکتا ہوں اب مجھے ان کی تےرھویں کے متعلق جو اطلاع ان کے پسماندگان کی جانب سے ملی اس کے مطابق اظہار تعزےت کے لئے میری شرکت لازمی تھی ، بدرپور ایم سی ڈی بارات گھر میں بروز اتوار 29 جنوری بندل فیملی کی جانب سے رسم پگڑی وغےرہ کی خبرکا ملنا مجھے غم ہلکا کرنے کے بہانے جیسا تھا لیکن کنہی مجبوریوں کے تحت میں اس میں بھی شامل نہ ہوسکا۔ایسا نہیں کہ مجھے وریندر کمار قمر بدرپوری سے انسےت نہ تھی،بلکہ ان کے قریب میںہی سب سے زیادہ دیکھا گیا،ایسا لوگوں نے کہا اور بتایا ہے۔میں سمجھتا ہوں اور سچائی یہ بھی ہے کہ ایک وقت شعرو ادب کے حوالے سے ایسا بھی آیا تھا کہ میں ہی تنہا ان کے گلے کاآپریشن ہوجانے اور آئی سی او میں وہ جس وقت تھے میں ہی ان کے پاس عیادت کے لئے جاتا تھا۔ایمس اسپتال میں علاج کے دوران کئی مرتبہ صبح کے اوقات میں ان کی عیادت کے لئے میں گیایہ کسی پر میرا کوئی احسان نہیں،میرے خلوص نے مجھے ٹہوکے مارے اور میں ان سے ملتا جلتا رہا،یہ میرا فرض تھا جو میںنے ادا کیا اور گھنٹوں ساتھ بیٹھا وقت بتاےا انہوںنے اپنے دل کی کہی لیکن تحریر کی صورت میں۔ڈاکٹروں نے بولنے کو منع کیا تھا،کورے کاغذ پر قلم کا استعمال اور تحریر کے ذرےعے اپنے دل کی بات ،ذہن کابوجھ سبھی کچھ مجھ سے شیئر کرتے رہے ۔دسوں برس سے دہلی میں جتنی بھی ادبی شامیں اردو شعرو ادب کے نام پر سجیں اور ان میں وریندر کمار قمر بدرپوری نے شرکت کی تو شاید ہی کوئی ایسی شام رہی ہو جس میں ناچیز شریک نہ ہوا ہو۔
وریندر قمر نے جن جن شعرا ءکویوں کے ساتھ کلام سنانا پسند کیا ان میں اردو اکادمی دہلی کے ادبی اجتماع ( نئے پرانے چراغ ) کے کچھ ہی مخصوص شعرا ءتھے۔ اردوشاعری کی ہر کسی بزم میں وہ شریک نہیں ہوا کرتے تھے ۔ہاں جن میں معیاری کلام پیش کرنے والے شاعر پہنچتے وہ بھی وہاں شامل ہوتے ۔ مثلاََ وقار مانوی، ڈاکٹر ظفر مرادآبادی،سردار پریم سنگھ نسیم،ڈاکٹر جی آر کنول،سیماب سلطانپوری،احقر حبیب سیفی،منوج بیتاب،آشیش سنہا قاصد، اجئے عکس،نزاکت امروہوی،کیف میرٹھی ،ناگیش چندرا،انل ورما میت ودےگر کے ساتھ ان کی شاعری کا رنگ ہی انوکھا دکھائی دیتا تھا۔متاع خواب شعری مجموعہ کے شاعر اردو دوست وریندر کمار قمر بدرپوری کی رحلت دہلی کے ادبی حلقوں کی رونق میں کمی لانے کی باعث بنے گی ، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جنہوںنے وریندر کمار قمر بدرپوری کو سنا ہے وہ ان کے لہجے کی اور شاعری میں برجستگی کی ضرور ستائش کریں گے،ان کی موت زبان کی شاعری کی موت ہے۔متاعِ قمر شعری مجموعہ میں داغ دہلوی کی زبان کاچٹخارا محسوس کیاجاسکتا ہے۔اس مجموعے کے آخری صفحے پر زبان کا ایک قطعہ ہے،جس کا ایک مصرع ہے چلے چلو کہ ٹھہرنے کایہ مقام نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ وریندر کمار قمر بدرپوری نے اسی وقت کے لئے یہ مصرع کہا تھا۔غزلوں کے علاوہ قطعات کی فہرست میں جداگانہ خیال کی ترجمانی کرتا ہوا یہ قطعہ میرے خیال سے ایک ایسا لاجواب قطعہ ہے جس میں بظاہر الفاظ عام شاعری میں برتے جانے والی شاعری کی طرح ہےں۔مگر معنوی سطح پر اس قطعہ کی لفظےات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ روز مرہ کی لفظےات کو ایک استعارے اور کناےے کی طرز پر برت کر قمر بدرپوری نے حقائق کا لبادہ عطا کیا ہے۔ شاعری کے مفہوم کو سمجھنا آسان قطعی نہیں ہوتا ،ہاں مگر عبارت کا تجزیہ کرنے والے نقد ونظر سے کام لے کر یہ کام بھی انجام دے لےتے ہیں۔قمر بدرپوری کی اردوزبان کااستدلال بہت مضبوط گر چہ نہیں تھا،حجے اور املا بھی بعض اوقات مجھ سے فون کے ذرےعے معلوم کرلیا کرتے تھے ،لیکن الفاظ کا ذخیرہ ان کے ذہن میں وسیع تھا،یہی سبب تھا کہ وہ زبان کی شاعری کیا کرتے تھے۔وریندر کما ربندل سے وریندر قمر بدرپوری بنے اس شاعر کو اردو زبان اتنی آچکی تھی کہ وہ کسی بھی بزم میں اہل ِاردو کو اپنی سمت متوجہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ مترادفات، محاورات، متضاد الفاظ،اور اپنی شاعری کو موضوع سے ہم آہنگ کرنے کا ان کی طریقہ بے مثل تھا۔خوبصورت شاعری خوبصور فکر اور حسین جذبوں ،روشن دل ودماغ کی خوبصورتی کی علامت تصور کی جاتی ہے،ان سب میں وریندر کمار قمر بدرپوری شہرِدہلی میں یکتا تھے۔یہ باتےں جس قطعہ کی مناسبت سے سامنے آئیں وہ قطعہ بھی دیکھیں
بلا کی دھوپ ہے ،سایہ برائے نام نہیں
چلے چلو کہ ٹھہر نے کا یہ مقام نہیں
ہمیں تو سادہ مزاجی ہی راس آتی ہے
ہمارے پاس دکھاوے کا تام جھام نہیں
اساتذہ کاقول ہے شاعر تلمیذ الرحمن ہے، شاعر بنتا نہیں ،شاعر پیدا ہوتا ہے،اساتذہ کے اسی قول کاجیتا جاگتا ثبوت وریندر قمر بدر پوری تھے۔ ہندو اور غےر اردو داں گھرانے میں پیدا ہوئے غےر ادبی ماحول میں جنمے وریندر کمار بندل نے جو شعور وفکر اور فن کی منزلیں اردو شاعری کی دنیا میں طے کیں وہ کم کے نصیب میں دیکھی گئیں۔قدرت کی طرف سے جو فطرت اپنے ذہن میں لے کر پیدا ہوتے ہیں انہیں دنیا تسلیم کرتی ہی کرتی ہے۔اردو شاعری کے چکر میں پڑ کراردوزبان سے عشق نے انہیں اردوزبان کی شاعری کا علامتی شاعر قرار دلا دیا تھا۔ڈاکٹر جی آر کنول نے ایک مرتبہ تبصرہ کرتے ہوئے حلقہ تشنگان ادب کی نشست میں کہا تھا کہ لیجئے آسان لفظوں میں اردوشاعری کالطف وریندر قمر بدرپوری سے لیجئے۔شعری اصناف سخن میں وریندر قمر نے نظمیں تو کم کہیں مگر غزلیں کافی تعداد میں لکھیں۔قمر کی غزل عام شعرا کی طرح حسن وعشق کی رمز شناس ضروری تھی ،مگر اس میں زندگی کے مسائل بھی سمائے ہوئے تھے ۔سال 2012میں اردو اکادمی دہلی کی تعاون سے متاع قمر کی اشاعت کے بعد ایک اور مسودہ بھی ترتےب دے رہے تھے ،اس کے لئے مجھ سے کئی بار رابطہ کیا مگر میں ہی کم نصیب وقت نہ نکال پایا،اور ہمارے درمیان سے کبھی نہ آنے کے لئے چلے گئے اور اپنے شعرکو خود پر ہی ثابت کرگئے
چلے چلو کہ ٹھہر نے کا یہ مقام نہیں
گیسٹ کالم
ڈاکٹر حبیب سیفی












