بالآخر سنہ 2008 کے مالیگاؤں بم دھماکے کے مقدمے میں ایک دہائی سے زائد طویل قانونی جنگ کے بعد خصوصی عدالت نے تمام سات ملزمان کو، جن میں بی جے پی کی متنازع اور سخت گیر رکن پارلیمان پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور فوج کے سابق افسر کرنل پرساد پروہت شامل ہیں، شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔ اس فیصلے نے ایک بار پھر بھارت میں انصاف، دہشت گردی، اور سیاست کے مابین نازک اور خطرناک تعلقات پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
29 ستمبر 2008 کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر میں ہونے والا بم دھماکہ ایک خونی واقعہ تھا جس میں 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ دھماکہ بھارت میں اس وقت ایک نیا بیانیہ لے کر آیا: "ہندوتوا دہشت گردی”۔ این آئی اے اور اے ٹی ایس کی ابتدائی تحقیقات میں چونکانے والے انکشافات سامنے آئے، جن میں پہلی بار انتہاپسند ہندوتوا تنظیموں کے افراد کو دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ یہ واقعہ ایک ایسا موڑ تھا جہاں دہشت گردی کے نظریہ کو مذہب سے ماوراء کر کے حقیقی سچائی تک پہنچنے کی امید بندھی تھی۔
عدالت نے یہ کہتے ہوئے تمام ملزمان کو بری کیا کہ استغاثہ کوئی "مضبوط اور قابل اعتماد” ثبوت پیش نہ کر سکا۔ سوال یہ ہے کہ جو افراد 15 برسوں تک جیلوں، عدالتی پیشیوں، اور تفتیشی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر رہے، ان کے خلاف اتنے سالوں میں بھی استغاثہ ٹھوس شواہد کیوں پیش نہ کر سکا؟ کیا یہ محض قانونی کمزوری ہے، یا اس کے پس پردہ طاقتور سیاسی دباؤ، ادارہ جاتی مداخلت اور جانبدار تفتیش کارفرما ہیں؟
یہ امر قابل افسوس ہے کہ جن پر دہشت گردی جیسے سنگین الزام عائد تھے، وہ نہ صرف آزاد گھومتے رہے بلکہ ایک بڑی سیاسی جماعت کی جانب سے لوک سبھا کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر پارلیمان بھی پہنچے۔ پرگیہ سنگھ کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے ’دیش بھکت‘ تھا۔ ایک جمہوریت میں اس سطح کا سیاسی انعام ملزمان کو دینا، نہ صرف عدلیہ بلکہ ملک کی اجتماعی اخلاقیات پر بھی کاری ضرب ہے۔
اس فیصلے کے بعد اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں میں شدید مایوسی اور غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ مالیگاؤں کے متاثرین آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ ان کے زخم آج ایک بار پھر ہرے ہو گئے ہیں۔ اگر ملزمان واقعی بے قصور تھے تو یہ سوال بھی لازم ہے کہ اصل مجرم کون ہیں؟ کیا یہ کیس بھی ان متعدد معاملات میں شامل ہو گیا ہے جو کبھی حل نہ ہو سکے اور صرف ایک بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کیے گئے؟
عدالت کا کام قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے، لیکن عدالتی فیصلے صرف قانونی دائرے میں محدود نہیں ہوتے، ان کے سماجی، سیاسی اور اخلاقی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ بریت کا مطلب یہ نہیں کہ انصاف مکمل ہو گیا۔ انصاف اس وقت مکمل ہوتا ہے جب سچ پوری قوت سے عوام کے سامنے آتا ہے، مجرم پکڑے جاتے ہیں اور بے قصوروں کو عزت بحال ملتی ہے۔
مالیگاؤں بم دھماکہ کیس اب قانون کی نظر میں بند ہو چکا ہے، لیکن عوام کے ضمیر میں یہ کیس زندہ ہے۔ یہ فیصلہ ان بے گناہوں کی روح کو چین نہیں دے سکتا جو اس دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ نہ ہی یہ ان آنکھوں کو سکون دے سکتا ہے جو انصاف کی راہ تکتے تکتے پتھرا چکی ہیں۔
کیا بھارت واقعی "سب کا انصاف” چاہتا ہے؟ یا انصاف اب صرف سیاسی پناہ گزینوں کا حق بن چکا ہے؟
یہ سوال اب تاریخ کے سپرد نہیں، بلکہ جمہور کی ذمہ داری ہے ۔لیکن کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گیارہ سالہ دور حکومت میں بی جے پی نے جمہور کی آواز کو دبانے کے لئے اتنے وسائل فراہم کر دئے ہیں کہ اب جمہور سے کسی احتجاج کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔
مالیگاؤں دھماکہ میں ہندو تنظیم کی شمولیت کے ثبوت اسی وقت سے مٹائے جانے لگے تھے جب ہیمنت کرکرے کا قتل ہوا تھا اور پھر سب کی آنکھوں کے سامنے بے شرمی کے ساتھ جیل میں بند سادھوی پرگیا کو بی جے پی نے ٹکٹ دے کر ایوان تک پہنچایا تھا اس وقت ہی سرکار کی منشا کا اندازہ ہو گیا تھا ۔اب ایسے میں این آئی اے عدالت کا فیصلہ حکومت کی منشا کے خلاف کیسے آ سکتا تھا ۔