ہمارا ملک جسے سونے کی چڑیاکہا جاتاہے اور جسے ہندوستان یا بھارت کہتے ہیں، ہمارا یہ پیارا ملک ہندوستان 15اگست سن 1947ءکو انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور 26 نومبر سن 1949ءکو آزاد بھارت کا آئین مکمل ہوا،جو 26 جنوری سن 1950ءکو ملک میں نافذ ہوا۔اسی مناسبت سے پورے ملک میں ہرسال 15 اگست کو جشن یومِ آزادی اور 26 جنوری کو جشن یومِ جمہوریہ، قومی تہوار کے شکل میں بڑے آن بان، شان، پورے جوش و خروش اور تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا گہوارہ ہمارا یہ ملک ساڑھے آٹھ سو سالہ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد برسوں ظالم انگریزوں کے زیر اقتدار رہا اور غلامی کی زنجیریں جو ہمارے پیروں پہ پڑی ہویی تھیں وہ کٹ گئیں اور ہم باشندگان ملک آزاد ہوگئے، تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ انگریزوں کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے بےشمار قربانیوں کے نذرانے پیش کئے گئے، لاکھوں انسانوں کی جانیں گئیں اور لاکھوں عورتوں بیوہ ہوگئیں اور اس سے کئی گنا بچے یتیم ہوگئے، ہزاروں مجاہدین جیل کی سلاخوں میں ڈالے گئے اور سینکڑوں لوگ پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گئے، تب جاکر جنت نشاں ملک ہندوستاں کو آزادی کا پروانہ نصیب ہوا۔ آزادیٔ وطن کی اس عظیم جنگ میں یوں تو ملک کے ہر طبقے اور مذہب کے لوگوں نے قربانیاں پیش کیں لیکن ملک کے مسلمانوں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخِ آزادی کا ایک روشن اور سنہرا باب ہے، خصوصا مدارس اسلامیہ کے بوریہ نشیں علماءکرام نے آزادئی وطن کے لئے جن قربانیوں کے نذرانے پیش کئے وہ تاریخ کے اوراق میں آبِ زر سے لکھے ہوئے تو ہیں، مگر ہم نے معدود چند کے ما سوا سینکڑوں دیگر مجاہدین آزادی کی بے مثال قربانیوں یکسر فراموش کردیا ہے، جو یقیناً انصاف کے منافی ہے۔جنگ آزادی کی دردانگیز کہانی میں درج ہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے لےکر لاہور کے قصہ خوانی بازار تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا، جن پر کسی سفید ریش بزرگ کی نعش نہیں جھول رہی تھی، فخر کی بات یہ ہے کہ ملک کے ان جاں باز علماءکرام نے آزادئی وطن کا صور اس وقت پھونکا تھا جب دوسرے لوگ خوابِ غفلت میں مست و مگن تھے اور انہیں طوقِ غلامی سے آزادی کا احساس تک نہیں تھا، حتی کہ سن 1866ءمیں’ام المدارس دارالعلوم‘ دیوبند اور سن 1919ءمیں جمعیۃ علماءہند کے قیام کے پیچھے بھی یہی تحریک کارفرما تھی، گویا ملک کے غیور مسلمانوں اور جاں باز اکابرین علماءدیوبند نے بھارت کی آزادی کی کہانی اپنے گرم لہو سے تحریر کیں اور اسی کی روشنی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے کہا تھا کہ:’انڈیا کی جنگ آزادی مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی ہیں‘اور جس کی سچی تصویر ابراہیم ذوق نے یوں کھینچی ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے،گل ہی نہ جانے، باغ توساراجانے ہے
گرامئی قدر قارئین حضرات!آج ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں، حالات کی اس منفی تبدیلی پر ہم آہ و بکا تو خوب کرتے ہیں لیکن افسوس ناک سچائی یہ ہے کہ ہم نوشتۂ دیوار نہیں پڑھتے اور نہ ہی اپنی شاندار تاریخ کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ خود ہم مسلمانوں نے اپنے ہی بیشتر مجاہدین آزادی کو فراموش کردیا ہے، آزادئی وطن کو ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری کہ اکا دکا چند ناموں کو چھوڑ کر نہ تو ہمیں ان کے خوبصورت نام یاد ہیں اور نہ ہی ان کی بےنظیر قربانیوں کی تاریخ اور کارنامے یاد ہیں اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی خاص دلچسپی ہے، اس سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ کے علاوہ (کیونکہ ان ہی کی وجہ سے آج بیشتر مسلم مجاہدین آزادی کے نام زندہ ہیں) آج ملک بھر میں ہزاروں اور لاکھوں چھوٹے بڑے مسلم تعلیمی ادارے قائم ہیں، ان کی طرف سے 15 اگست اور 26 جنوری کو ہر سال بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ پروگرام منعقد ہوتے ہیں، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان پروگراموں میں دوچار کے علاوہ کسی بھی مسلم مجاہد آزادی کا نام تک نہیں لیا جاتا، اسی غفلت و کاہلی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے مجاہدین آزادی کے نام رفتہ رفتہ تاریخ کے صفحات سے ناپید ہوتے جارہے ہیں اور ہمیں شکوہ یہ ہے کہ لوگ انہیں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام!یاد رکھیں کہ زندہ قومیں اپنی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتیں،انہیں اپنے بزرگوں کی تاریخ اور اپنے آباءواجداد کے کارنامے ہمیشہ یاد رہتے ہیں،وہ ان تاریخی کارناموں کو اپنی نسلوں کے لئے محفوظ رکھتی ہیں تاکہ ان سے سبق حاصل کرکے ملک میں سر اٹھا کر چل سکیں،فخر کے ساتھ جی سکیں اور زندہ دلی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکیں۔اس لئے آج عہد کریں کہ آزادئی وطن کی ہم اپنی تاریخ پڑھیں گے،بچوں کو پڑھائیں گے،انہیں حفظ کریں گے،یاد رکھیں گے،اپنے دوستوں میں ان مجاہدین آزادی کا تذکرہ اور چرچا کریں گے،کاغذ کے پنوں کے ساتھ اپنے سینوں میں بھی محفوظ کریں گے اور کم از کم 15 اگست ہو یا 26جنوری، ان اہم مواقع پر ہم اپنے اسٹیجوں سے ملک کے ان جیالوں،قوم کے متوالوں، آزادی کے دیوانوں اور ملت کے سرفوشوں کو ضرور یاد کریں گے اور اپنے پروگراموں کا انہیں اہم حصہ بنائیں گے ان شاءاللہ، کیونکہ ہماری تاریخ لکھنے کے لئے اور لکھی ہوئی تاریخ کو ہمیں پڑھانے کے لئے اب آسمان سے کوئی فرشتہ نہیں آنے والا، یہ کام مجھے، آپ اور تمام مسلمانوں کو خود کرنا ہوگا، کیوں کہ لاکھ منفی کوششوں اور پروپیگنڈوں کے باوجود ہم اپنی شاندار تاریخ ہی کی وجہ سے آج زندہ ہیں اور کچھ حد تھا ہماری بقاءہے، خدانخواستہ جس دن ہماری تاریخ مٹ جائے گی یا مٹادی جائے گی،یقین جانئے کہ روئے زمین پر اس دن ہماری بھی اجتماعی تاریخ کی موت ہوجائے گی۔ آج ہمیں مہاتما گاندھی،نیتاجی سبھاش چندر بوس،لال بہادر شاستری،جے پرکاش نارائن،سردار ولبھ بھائی پٹیل،پنڈت جواہر لعل نہرو،راجہ مہندر پرتاپ سنگھ،کھدی رام بوس،سروجنی نائیڈو،جھانسی کی رانی لکشمی بائی،بھگت سنگھ،ڈاکٹر چندر شیکھر آزاد،گوپال کرشن گوکھلے،رابندر ناتھ ٹیگور،ڈاکٹر رادھا کرشنن اور رام پرساد بسمل جیسے عظیم مجاہدین آزادی کے نام تو یاد ہیں،جو اچھی بات ہے لیکن اپنے بزرگوں اور آباءواجداد کے ان ناموں کی طویل فہرست ہمیں یاد نہیں جن کے سرفروشانہ جذبوں، بے مثال قربانیوں،قلندرانہ ولولوں اور بے نظیر کوششوں کے صدقے میں ہمارا یہ ملک ظالم انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا اور ساتھ ہی بحیثیت ملت اسلامیہ ہمیں اس وطن عزیز میں سر اٹھا کر جینے کا حق عطا ہوا۔
کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے
گنوادی ہم نے، جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر، آسماں نے ہم کو دے مارا
آئیے! چند مشہور مسلم مجاہدین آزادی کے نام بطورِ نمونہ لکھے جاتے ہیں تاکہ کم از کم ہم مسلمانان ہند انہیں 15 اگست یومِ آزادی اور 26 جنوری یومِ جمہوریہ کے پروگراموں میں سچی خراج عقیدت اورقلبی خراج تحسین پیش کرسکیں اور اپنی نسلوں کے دل و دماغ میں یہ بٹھا سکیں کہ ہم اس ملک کے وفادار و جاں نثار و ذمے دار شہری بھی ہیں اور اس کے اولین معمار و حصہ دار بھی،کوئی عارضی کرایہ دار نہیں۔ اسی لئے بڑی محنت اور کاوش سے بالعموم ہم وطنوں اور بالخصوص مسلمانوں کے لئے سو (100) مشہور مسلم مجاہدین آزادی کے اسمائے گرامی کے لئے یکجا کیا ہے تاکہ ہم اور آپ انہیں ان کے ناموں سے جانیں اور اپنی یادوں کے تہہ خانوں میں اسے تاحیات محفوظ کر لیں۔
اے میرے وطن کے لوگوں! تم خوب لگا لو نعرہ
یہ شبھ دن ہے ہم سب کا، لہرا لو! ترنگا پیارا
اے میرے وطن کے لوگو! ذرا آنکھ میں بھر لو پانی
جو شہید ہوئے ہیں ان کی، ذرا یاد کرو قربانی
جن مسلم مجاہدین نے اپنا سب کچھ لٹادیا، ان میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، شاہ اسحق محدث دہلوی، شاہ رفیع الدین محدث دہلوی، شاہ عبد القادر محدث دہلوی، امیر حریت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، امام حریت مولانا محمد قاسم نانوتوی، امام انقلاب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، سرخیل آزادی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی، حافظ محمد ضامن شہید، مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ دہلوی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا مملوک العلی نانوتوی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، ابو المحاسن مولانا محمد سجاد بہاری، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی، مولانا ثناءاللہ امرتسری، مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا احمد سعید دہلوی مولانا سید محمد میاں دیوبندی، مولانا عبد الباری فرنگی محلی، مولانا سید سلیمان ندوی، علامہ فضل حق خیرآبادی، علامہ فیض احمد بدایونی، علامہ احمد اللہ شاہ مداراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا جعفر تھانیسری، مولانا احمد اللہ فیض آبادی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری، مولانا ولایت علی عظیم آبادی، مولانا عنایت علی عظیم آبادی، مولانا احمد اللہ عظیم آبادی، مولانا عبد الرحیم صادق پوری، مولانا نصیر الدین دہلوی، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا عزیز گل پیشاوری، مولانا عبد الرحیم رائے پوری، مولانا عبد الحئی بڈھانوی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا شوکت علی رام پوری، مولانا منیر نانوتوی، مولانا حسرت موہانی، مولانا مظہر الحق بہاری، مولانا نورالدین بہاری، مولانا ابراہیم الوری، مفتی احمد کاکوروی، مفتی مظہر کریم دریابادی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر سید محمود، مولانا ظفر علی خان، حکیم اجمل خان، دلاور خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی گوہر، مولانا منصور انصاری، مولانا احمد اللہ پانی پتی، مولانا نذیر حسین دہلوی، مولانا سید محمد فاخر، مولانا فضل ربی، مولانا فضل محمود، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، رفیع احمد قدوائی، شفیق الرحمن قدوائی، کرنل محبوب، خان عبدالغفار خان سرحدی، شاہ معین الدین اجمیری، اورنگ زیب بہادر شاہ ظفر، مرزا بیدار بخت، نواب حیدر علی، شیر میسور ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ، نواب مظفر الدولہ، سید محمد فخر الدین، سر علی امام، مولوی محمد باقر، مولوی عبد الغنی ڈار، حکیم نصرت حسین، شیخ بھکاری، بطخ میاں، بدر الدین طیب جی، میر قاسم علی خان، عظیم اللہ خان، آغاخان، بیگم حضرت محل، یگم زینت محل، بیگم حسرت، خدیجہ بیگم، زلیخا بیگم، امجدی بیگم، زبیدہ بیگم، آمنہ قریشی، عنایت خان، نورالنساء، ارونا آصف، آسیہ خاتون اوربی اماں وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گرداغہائے سینۂ را