مسقط(ہ س)۔ایران کے جوہری پروگرام پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کی توجہ آج ہفتے کے روز سلطنت عمان کی طرف مبذول ہے۔ یہاں ایرانی اور امریکی فنی ماہرین کے درمیان بعض اہم اور نازک تفصیلات پر مذاکرات ہوں گے جو ایران اور امریکہ کے درمیان ایک نئے جوہری معاہدے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ایرانی وفد کی قیادت نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور، مجید تخت روانچی اور نائب وزیر برائے قانونی و بین الاقوامی امور، کاظم غریب آبادی کریں گے۔ دوسری جانب امریکی وفد میں تقریباً 12 نمائندے شامل ہوں گے، جن کا تعلق وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور خفیہ ایجنسیوں سمیت مختلف اداروں سے ہو گا۔ اس وفد کی قیادت مائیکل اینٹ کریں گے، جو امریکی وزارت خارجہ میں پالیسی پلاننگ کے ڈائریکٹر ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اینٹن 2015 کے ایران-امریکہ جوہری معاہدے کے سخت مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔بات چیت کا مرکزی موضوع یورینیم کی افزودگی اور اس کا تناسب ہو گا، اگرچہ اس معاملے پر امریکی موقف میں کچھ تضاد بھی سامنے آیا ہے۔گذشتہ ماہ قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے کہا تھا کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔دوسری جانب، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی، اسٹیو ویٹکوف کا کہنا ہے کہ ایران کو 3.67 فی صد افزودگی کی اجازت دی جا سکتی ہے، جیسا کہ 2015 کے معاہدے میں طے پایا تھا۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کو سول نیوکلیئر پروگرام رکھنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ وہ صرف درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کرے۔اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا تھا کہ اگر امریکہ حقیقت پسندانہ مطالبات پیش کرے تو معاہدہ ممکن ہے۔ انھوں نے امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے اور ایران کے پْر امن افزودگی کے حق کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔یورینیم افزودگی کے علاوہ ایک اور حساس موضوع … ایران کا میزائل پروگرام بھی مذاکرات کا حصہ ہو گا۔ یہ بات ایک با خبر ایرانی عہدے دار نے بتائی۔اس اہل کار کے مطابق ایران کا موقف ہے کہ میزائل پروگرام یورینیم کی افزودگی سے کہیں زیادہ بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک معروف بین الاقوامی خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی مذاکرات کاروں کا گذشتہ ہفتے روم سے واپسی پر یہ تاثر تھا کہ امریکا اس بات کو تسلیم کر چکا ہے کہ ایران اپنا افزودگی پروگرام مکمل طور پر ختم نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنے افزودہ شدہ یورینیم سے مکمل طور پر دست بردار ہو گا۔البتہ، میزائل پروگرام بدستور سب سے بڑا اختلافی نکتہ ہے۔عہدے دار کے مطابق اس وقت واحد باقی اختلافی مسئلہ میزائلوں کا ہے۔انھوں نے مزید زور دیا کہ ایران کا موقف واضح اور اٹل ہے کہ وہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ حد …سے زیادہ میزائل پروگرام پر کوئی نئی رعایت نہیں دے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ایران کی دفاعی صلاحیتیں "ناقابلِ مذاکرات” ہیں۔عہدے دار نے وضاحت کی کہ ایران محض نیک نیتی کے طور پر 2015 کے معاہدے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قرارداد کی شرائط کی پاسداری کرے گا اور جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائل بنانے سے گریز کرے گا۔مغربی ممالک کو خدشہ ہے کہ ایران کا یورینیم افزودگی پروگرام ایسے مواد کی تیاری کا سبب بن سکتا ہے جس سے جوہری ہتھیار بنایا جا سکتا ہے، اور وہ اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بھی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔تاہم ایران بارہا یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف بجلی پیدا کرنے اور دیگر سویلین مقاصد کے لیے ہے، وہ یورینیم کو صرف انہی مقاصد کے لیے افزودہ کر رہا ہے۔ایران نے بارہا یہ بھی کہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائل بنانے کی کوشش نہیں کر رہا اور اس کی دفاعی صلاحیتیں مذاکرات کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک قرارداد، جو 2015 کے معاہدے کی توثیق کرتی ہے، ایرانی میزائل پروگرام پر بھی کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔تاہم حالیہ مہینوں میں یورپی سفارت کاروں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی جانب سے ایرانی میزائل پروگرام کو مذاکرات کا حصہ بنانے کی کوششوں کو ایرانی حکام کی جانب سے بار بار مسترد کر دیا گیا ہے، جو اسے ناقابلِ مذاکرات قرار دیتے ہیں۔واضح رہے کہ عباس عراقچی، جو ماہرین کے اجلاس کے بعد اسٹیو ویٹکوف سے بالواسطہ ” مذاکرات کے تیسرے دور میں ملاقات کریں گے، وہ جمعے کو مسقط پہنچ گئے۔اس سے پہلے مسقط اور روم میں ہونے والے دو ادوار کو فریقین نے "مثبت اور تعمیری” قرار دیا تھا، تاہم بہت زیادہ پْر امید ہونے سے گریز کیا گیا۔












