ظلم و بربریت سے بھری اس دنیا میں کبھی کبھی ہی سہی کوئی اچھی خبر بھی مل ہی جاتی ہے جو انتقام و بدعہدی کے بازار میں امید کی ایک موہوم کرن بن جائے ۔ادھر ایک ماہ سے نمیشا کی پھانسی کی سزا پر پورا ملک سوگوار تھا اور اس کے گھر والوں سمیت پورا ملک اس کی رہائی کے لئے دعا گو بھی تھا ۔یہ پورا معاملہ انسانی اقدار کے زوال کا تھا ۔جس کے تحت ایک معمولی سی نرس بطور ملازم شام جاتی ہے اور وہاں دوران نوکری اسے ایک ایسا شامی شہری مل جاتا ہے جس کے ساتھ مل کر وہ نرس اپنا ایک ہسپتال قائم کرتی ہے اور پھر ایک دن یہ خبر ملتی ہے کہ نمیش پریا نے اپنے بزنس پارٹنر کو نیند کا انجکشن دے کر مار ڈالا ۔اسے پولیس نے ہراست میں لیا تفتیش ہوئی اور عدالت عدالت جاتے ہوئے اسے سزائے موت ہو گئی ۔معاملہ اس لئے زیادہ سنگین تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں یہ سب ہوا تھا جہاں خون کا بدلہ خون ہے ۔بہرحال حلا نمیش پریا کی پیروی میں نہ صرف اس کے خاندان والے لگے بلکہ ملک کی پوری مشنری نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اس کی سزا میں کوئی تخفیف بھی نہ کرا سکا ۔رفتہ رفتہ وہ تاریخ بھی آگئی جس دن اسے سزائے موت ہونی تھی کہ یکایک ایک خوشگوار خبر نے ملک کے لوگوں کو پر امید کر دیا کہ اس کی سزائے موت کی تاریخ کو موخر کر دیا گیا ہے۔
یمن میں تعینات بھارتی نرس نمیشا پریا کی سزائے موت پر روک لگنا نہ صرف ایک عدالتی پیش رفت ہے بلکہ انسانی ہمدردی، سفارتی کوششوں اور انصاف کی جیت بھی ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قانون کی سختی کے باوجود زندگی کی حرمت اور دوسرا موقع دینا ہمیشہ ترجیح ہونی چاہیے۔
نمیشا پریا پر ایک مقامی یمنی شہری کے قتل کا الزام تھا۔ مقدمہ چلا، سزا ہوئی اور موت کی گھڑی قریب آ گئی۔ لیکن اس دوران جس طرح بھارتی حکومت، سفارتی حلقے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور نمیشا کی والدہ نے مسلسل اپیلیں کیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ ایسے مقدمات میں جہاں ایک غیر ملکی مجرم قرار دیا گیا ہو، عدالتی اور سماجی انصاف کے بیچ توازن قائم رکھنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس پس منظر میں نمیشا پریا کی سزا پر لگائی گئی یہ عبوری روک اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔
یمن جیسا ملک جو مسلسل جنگ، بدامنی اور انتشار کا شکار ہے، وہاں ایک منصفانہ عدالتی عمل کی امید رکھنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ ایسے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ یمنی عدالت نے بین الاقوامی انسانی اقدار کو اہمیت دی۔ ساتھ ہی، بھارت کی وزارت خارجہ، خاص طور پر سفارت خانے کی کوششیں اس پورے عمل میں اہم رہیں۔
لیکن یہ صرف ایک فرد کی رہائی کا مسئلہ نہیں، یہ ایک بڑی بحث کو جنم دیتا ہے: کیا ایسے مقدمات میں جہاں حالات، زبان، ثقافت، اور انصاف کے تقاضے مختلف ہوں، پھانسی جیسے ناقابل واپسی فیصلے پر نظر ثانی نہیں ہونی چاہیے؟ کیا زندگی کو ایک دوسرا موقع دینا زیادہ مناسب نہیں؟
نمیشا کی سزا پر لگائی گئی یہ روک ہمیں ایک موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم بطور عالمی برادری سزائے موت جیسے اقدامات پر دوبارہ غور کریں۔ انصاف، اصلاح اور ہمدردی کو قانون کے ساتھ ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آخر میں، نمیشا پریا کی والدہ کی بے پناہ ہمت، بھارتی عوام کی دعائیں اور حکومت کی کوششیں اس کامیابی کا حصہ ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس معاملے کا ایک ایسا حل نکلے جو قانون، انسانی وقار اور معافی کی طاقت—تینوں کو ساتھ لے کر چلے۔خبر کے مطابق نمیشا کی سزائے موت کی تاریخ اس لئے ٹلی ہے کہ بھارت کے معروف عالم دین شیخ ابو بکر موسمیات جن کا تعلق نمیشا کی ریاست کورل سے ہی ہے نے آگے بڑھ کر شام کا سفر کیا اور وہاں موجود بڑے علما سے مل کر انہوں نے مرحوم کے گھر والوں سے مل کر انہیں اس بات کے لئے راضی کر لیا کہ وہ ڈیٹ کی رقم لے کر نمیشا کو معاف کر دیں ۔یہ ایک واضح اسلامی قانون ہے کہ اگر کسی پر قتل کا الزام ثابت ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ریاست بیچ سے ہٹ جاتی ہے اور اگر مہلوک کے گھر والے چاہیں تو اپنی مرضی کے مطابق رقم یا جو کچھ انہیں چاہئے لے کر مجرم کو معاف کر سکتے ہیں ۔شیخ ابوبکر نے اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے شام کے مفتیان کو آگے بڑھایا ہے ۔اور چونکہ ابھی یہ گفتگو چل رہی ہے اس لئے شام کی حکومت نے سزائے موت کی تاریخ کو معطل کر دیا ہے ۔