عام طور پر انتخاب سے قبل عوامی فلاح کے نام پر اعلانات ایک رواج کی صورت اختیار کر چکی ہے ،اور اب تو تقریبا ملک کی تمام پارٹیاں ایسے اعلانات کر رہی ہیں۔لیکن ایسے اعلانات کو سب سے زیادہ بدنام بی جے پی نے کیا ہے ۔کیونکہ 2014میں انہوں نے جو محیرالعقول وعدے کئے تھے اس کے وفا نہ کرنے سے بی جے پی کے وعدے جملہ بازی کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں ۔ایسے میں دیگر پارٹیوں کے ذریعہ بھی انتخاب سے قبل جو وعدے کئے جاتے ہیں اس پر بھی شک کیا جانے لگتا ہے ۔بی جے پی کو ایسے وعدوں سے نقصان تو پہنچا ہے لیکن اس نے نہایت چالاکی سے اس نقصان کی بھرپائی کے لئے الیکشن میں کھل کر نفرت انگیز بیان بازی کے ذریعہ پورے بھارت کو مذہب کے نام پر تقسیم کر دیا ۔لیکن بی جے پی کو اس کا نقصان بھی ہوا ہے اور پارلیمانی الیکشن میں اتر پردیش کے نتائج سے یہ ثابت بھی ہو گیا ۔انتخاب سے قبل ابھی نتیش کمار نے جو وعدے کئے ہیں اس کو بہار کے لوگ پوری طرح رد تو نہیں کر رہے ہیں کیونکہ نتیش کمار بہرحال بہار کے ایسے وزیر اعلی ہیں جنہوں نے اپنے پہلے دور میں تاریخ ساز کارنامہ انجام دئے ہیں ۔
یہ صورتحال بہار کی سیاست میں انتخابی بخار کے عروج کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار نے انتخاب سے قبل جو 10 بڑے اعلانات کیے ہیں، وہ محض حکومتی فیصلے نہیں بلکہ ایک منظم انتخابی حکمتِ عملی کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ سوا پانچ کروڑ ووٹروں کو براہِ راست فائدہ پہنچانے کی کوشش دراصل بیلٹ باکس پر اثر انداز ہونے کی سب سے پرانی مگر آزمودہ ترکیب ہے۔
ان اعلانات میں خواتین، نوجوان، کسان اور غریب سبھی طبقات کو شامل کر کے نتیش کمار نے ایک ایسی ہمہ گیر پالیسی پیش کی ہے جس کا مقصد ہر طبقے کو یہ محسوس کرانا ہے کہ حکومت ان کے مسائل اور ضرورتوں کو براہِ راست سمجھتی اور حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، ڈومیسائل پالیسی کا نفاذ، اور فلاحی اسکیموں کا دائرہ بڑھا کر وہ اپنے حق میں ایک مضبوط رائے عامہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس حکمتِ عملی کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن کے لیے ان اعلانات پر سیدھی تنقید کرنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ یہ اقدامات عوامی مقبولیت رکھنے والے ہیں۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا یہ اعلانات زمینی سطح پر مؤثر اور دیرپا نتائج دے پائیں گے، یا پھر یہ محض انتخابی موسم کی عارضی گرمجوشی ثابت ہوں گے؟
بہار کی سیاست میں ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ انتخاب سے قبل کیے جانے والے ایسے عوامی اعلانات کا ووٹروں کے رویّے پر اثر ضرور پڑتا ہے، خاص طور پر جب اس کا دائرہ وسیع اور سب کو شامل کرنے والا ہو۔ ممکن ہے کہ نتیش کمار کو انتخابی صورت حال کے مد نظر یہ احساس ہو گیا ہو کہ ان کی اپنی پارٹی جے ڈی یو کو لوگ بی جے پی سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔اور خود بی جے پی کی کور کمیٹی کی بھی یہی خواہش ہو کہ اس انتخاب میں جے ڈی یو کی نمائندگی کو کم سے کم کیا جائے تاکہ جوڑ توڑ کرکے وہ اپنی سرکار بنا لیں ۔اور عام طور پر پورے بہار میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو چکی ہیں ۔نتیش کمار کی صحت کو لے کر بھی سوشل میڈیا پر بہت غلط قسم کی افواہ اڑائی جا رہی ہے ۔لہذا نتیش کمار کو اس انتخابی ماحول میں ہی یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک بار اور حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں تاکہ وہ بہار کے سلسلہ میں جو خواب دیکھے تھے اس میں رنگ بھر سکیں ۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا ووٹر پہلے کی نسبت زیادہ باشعور اور حساب کتاب کرنے والا ہے۔ اگر ان وعدوں کو عمل میں لانے میں تاخیر یا ناکامی ہوئی تو یہ فائدہ اُلٹا نقصان میں بھی بدل سکتا ہے۔فی الحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نتیش کمار نے انتخابی بساط پر ایک بڑا اور اہم قدم اٹھایا ہے، جس کا فوری اثر اپوزیشن کی حکمت عملی اور بیانیے پر پڑنا لازمی ہے۔
اصل نتیجہ ووٹنگ والے دن ہی سامنے آئے گا کہ عوام ان اعلانات کو ترقی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں یا انتخابی جملہ بازی۔