پلیسس آف ورشپ ایکٹ کو نظر انداز کیا گیا
اورنگزیب پر مسجد توڑنے کا الزام بالکل غلط ہے
سروے سے کوئی پریشانی نہیں لیکن ایمانداری برتی جائے
حماس دہشت گرد نہیں ، فلسطین آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے
ممتاز عالم رضوی
نئی دہلی :وارانسی کی گیانواپی مسجد کے معاملہ میں مسلم فریقین کی درخواستیں مسترد کیے جانے کے ایک دن بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علما ہند مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ میرا اعتماد ہے کہ ملک میں کوئی بھی مسجد کسی مندر کو توڑ کر نہیں تعمیر کی گئی بلکہ تمام مسجدیں جائز جگہوں پر تعمیر ہوئی ہیں ۔یہاں کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں جمعیۃ علما ہند کی جانب سےپریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ملک کے موجودہ حالات پر مولانا ارشد مدنی نے اپنے خیالات پیش کیے ۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ بات آستھا کی نہیں ہے ، بابری مسجد کے تعلق سے جو فیصلہ آیا تھا اس میں صاف صاف سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر کو توڑ کر نہیں کی گئی ۔اگر مسلمان مندر کو توڑ کر مسجد تعمیر کرتے تب کہہ سکتے تھے کہ آستھا کی بنیاد پر فیصلہ کیا گیا ۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں سروے سے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری مساجد کسی کی عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں بنائی گئیں لیکن سروے میں ایمانداری برتی جائے اور صحیح رپورٹ پیش کی جائے۔بابری مسجد کے لیے سپریم کورٹ نے زمین دی ہے ؟ اس سوال پر مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں مسجد کے لیے زمین کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی الگ کوئی مسجد تعمیر کرنے کا مسئلہ ہے کیونکہ مسجدیں تو ہر روز تعمیر ہو رہی ہیں ، آزادی کے بعد سے لے کر اب تک نہ جانے کتنے ہزار مسجدیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ گیانواپی مسجد پر الہ آباد ہائی کورٹ کے آئے فیصلے پر کیے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991؍کو نظر انداز کیا ہے اور مسلمانوں کو سپریم کورٹ جانے کے لیے مجبور کیا ہے لہٰذا جو لوگ مقدمہ لڑ رہے ہیں وہ سپریم کورٹ جارہے ہیں ۔ایک سوال پر انھوں نے اپوزیشن کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ جن لوگوں نے پلیسس آف ورشپ ایکٹ بنایا تھا تو ان کو چاہئے کہ وہ آگے آئیں جو سچ ہے وہ لوگوں کو بتائیں ۔ انھوں نے کہا کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ہمیں عدالت پر یقین ہے اور اس لیے ہم عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹاتے ہیں ۔ ہمارا کہنا ہے کہ جو بھی عدالت کا فیصلہ ہوگا اس کو ہم قبول کریں گے ۔ اب کیا ہوگا ، کیسے ہوگا یہ وقت بتائے گا ۔ آپ گیانواپی اور متھرا عید گاہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے ؟ اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری مسجدیں کسی کی عبادت گاہوں کو توڑ کر نہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ اورنگزیب نے گیانواپی مسجد توڑی تھی ایسا کہا جا رہا ہے ؟ اس سوال پر مولانا مدنی نے کہا کہ یہ غلط بات ہے ، آج بھی ملک میں قدیم مندر موجود ہیں جو اس کا ثبوت ہیں ۔انھوں نے کہا کہ مہاراشٹر ، کرناٹک وغیرہ میں جاکر دیکھ سکتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند کبھی کسی کو دعوت نہیں دیتا لیکن اگر کوئی آتا ہے تو اس کا خیرمقدم کرتا ہے یہ ہماری تاریخ رہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہم کسی کےمخالف نہیں ہیں ، بس ہمارا کہنا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ اسرائیل اور فلسطین کے در میان جاری جنگ کے تعلق سے پوچھے گئے سوال پر مولانا مدنی نے کہا کہ فلسطینی ویسے ہی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں جیسے ہم نے کبھی لڑی تھی ۔ ہمارے 33؍ہزار علما ئے کرام قتل کیے گئے۔ نہ جانے کتنے لوگ شہید ہوئے ۔ اسی لیے جب پی ایم مودی نے حماس کو دہشت گرد کہا تھا تو ہم نے سب سے پہلے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ مجاہد آزادی ہیں ،اس کا اثر ہوا اور حکومت ہند نے اپنے موقف کو بدلا ، اب حکومت فلسطینیوں کی مد د کر رہی ہے ۔ حکومت ہند نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قرار داد کی حمایت کی ہے جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں ۔