دارالعلوم میں داخلہ نہ ہونےوالے طلبہ کوجس نگاہ سےلوگ دیکھتےہیں اس سے یقینا طلبہ کےحوصلےشکن ہوتےہیں، مزیدآگے بڑھنےاور خدمت دین کا جوجذبہ طلبہ کےاندر موجود ہوتا ہے دھیرےدھیرے معدوم ہونےلگتاہے
بعض لوگوں کا زبان سےیہ کہدینا کہ دارالعلوم کےلئے کیوں پڑھتےہیں? دین کی خدمت کےلئے پڑھیں رضائےالہی کےلئے پڑھیں! یقینا یہ بات قابل قبول ہے لیکن! اس وقت ایک بڑی تعداد کےذہنوں میں ہروقت دارالعلوم بیٹھا ہے، اور وہ دیگراداروں کےطلبہ کےسامنے یہ کہنےمیں بھی دریغ نہیں کرتے کہ آپنے محنت نہیں کی ہوگی۔
گزشتہ سال ہمارے ایک ساتھی کادارالعلوم میں نمبرنہ آیا،شاہی گئے تووہاں بھی نہ آسکا جب انکو خبرہوئ تو کہاکہ اب میں تعلیم چھوڑ رہاہوں بہرحال اسکو سمجھایا اور پھرجامع مسجدامروہہ میں داخلہ ہوگیا، یہ تومیرے رفیق درس کامعاملہ اس کے سوا نہ جانےکتنے طلبہ ایسےہونگے جو اسی بنیاد پر تعلیم چھوڑدیتےہونگے
خصوصاً میرے علاقے میں تو مدرسہ کی تعلیم کامعیار بھی دارالعلوم میں طلبہ کے داخلہ ہونے نہ ہونےپرہی کیاجاتاہے، جس ادارے سے طلبہ کا داخلہ کثیرتعداد میں ہوا گویا معیاری تعلیم وہیں ہورہی ہے، یہ چلتارہا تو دور نہیں! کہ غلط قدم اٹھانےوالےطلبہ کی خبریں ہمارے کانوں کو سننے اور دیکھنے کوملیں، اور پھر کتنےہی والدین اپنی جوان اولاد سےمحروم ہوجائیں، کتنی ہی بہنوں سے انکے عزیز بھائ جداہوجائیں اور ہم کف افسوس ملتےرہ جائیں !
استاذ مکرم مولانافخرالدین صاحب نےیہ بات دوران درس بڑےہی درد کےساتھ کہی تھی کہ بھائ تم محنت کرکےداخلہ کرالینا ورنہ لوگ ہمیں ہی کہیں گے کہ اساتذہ محنت نہیں کرتےبلکہ وقت خرابی کرتےہیں ۔
یہ صورت حال پیش آنےکی وجہ کیاہے? اسکی وجہ یہ ہےکہ حصول تعلیم کےلیے جو اول درجہ کی چیزتھی "اخلاص” اس سے طلبہ تہی دست ہوگئے، محض شہرت پذیری کی غرض سے تعلیم میں لگےہیں، مقصداصلی کوفراموش کرکے بےمقصدچیزکودرمیان میں لاکر دینی تعلیم کےلئےکمربستہ ہیں جوکہ لاحاصل ہے،
ہونا تویہ چاہیےتھاکہ! علماء نوخیزاور خالئ الذہن بچوں کو شہرت کابچاری نہ بناکرخلوص انکےاندرپیوست کردیاجاتا، اور اعلی تعلیم کےلئے دیگراداروں کارخ کرنےوالےطلبہ کی بھی خصوصی طورپر ذہن سازی کی جاتی انکو احساس کمتری جیسی مہلک بیماری سےبچنےکی تدبیریں سجھائ جاتیں، انکوبتایاجاتا کہ ہرایک مدرسہ اہمیت کاحامل ہے اور اپنی ایک شان رکھتاہے، تم دارالعلوم ضرور جاؤ لیکن اگروہاں تمہارا انتخاب نہ ہوپائے تو احساس کمتری کاشکار ہرگز نہ ہونا بلکہ جس ادارہ میں بھی انتخاب ہو اخلاص کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی خاطر حصول تعلیم میں لگےرہنا۔
یہ ذہن سازی کرنی چاہئے تھی مگراکثریت ایسےطلبہ کی ہے جو محض دارالعلوم کو مقصداصلی بناکر دن رات لگےہوئےہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس چیزکےلئےمحنت نہیں کرنی چاہئے، محنت کرنی چاہئے اور ضرور کرنی چاہئے لیکن مقصداصلی نہ بناکر محض خدمت دین کی خاطرمحنت کی جائے، تاکہ آگےچل کر اچھےاسلوب کےساتھ دین کی خدمت کرسکیں، اس نیت کےساتھ تعلیم حاصل کی جائیگی تو اسی کےضمن میں داخلہ بھی ہوجائیگا ان شاءاللہ
دیرسےہی سہی اس چیزپر عمل ہوناچاہئے اساتذہ طلبہ کےذہنوں میں یہ بات بٹھائیں کہ تعلیم صرف دارالعلوم ہی میں نہیں ہوتی، دین کی خدمت صرف فضلائےدارالعلوم ہی نہیں کرتےبلکہ اکابرین میں بےشمارایسے ملیں گے جودیگراداروں سےفارغ ہوئے لیکن دین کی وہ خدمت کی کہ رہتی دنیاتک انکو انکےکارناموں کےساتھ یاد رکھاجائیگا ۔ بجنورکی عظیم شخصیت حضرت مولانانسیم احمدغازی صاحبؒ جو مظاہرعلوم سےفارغ تھے حضرت قاری صدیق باندویؒ جنکودنیاجانتی ہے یہ بھی اولا مظاہرعلوم پہونچے پھروہاں سےشاہی مرادآباد آگئے اوروہیں سےتعلیم مکمل کی انکےعلاوہ اکابرین کی ایک بڑی جماعت ہے جنہوں نے دیگراداروں سےفارغ ہوکررضائےالٰہی کی خاطرکارہائےنمایاں انجام دئے۔ ااکےبرعکس کتنے فضلائے دارالعلوم ایسےبھی نظرآتےہیں جن کواللہ نے خدمت دین کےلیےقبول ہی نہیں کیا۔ دارالعلوم کاقیام 1866 میں ہوا توکیا اس سےقبل کےاکابرین کواپنے دہن سےاتاردیاجائے? یہ باتیں ہمیں اپنےذہنوں سےنکالنی ہوگی ورنہ اسکاانجام بھگتناہوگا!!
محمدخضرارشادبجنوری
موبائل نمبر: 9761162018