بیروت (ہ س)۔لبنانی تنظیم حزب اللہ کے ایک ذمے دار نے کہا ہے کہ لبنانی حکام کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ تنظیم اپنے ہتھیاروں کے حوالے سے کسی بھی بحث کو اس وقت تک قبول نہیں کرے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان سے مکمل طور پر انخلا نہیں کرتا … اور وہ اپنے ان "جارحانہ اقدامات” کو بند نہیں کرتا جو جنگ بندی معاہدے کے باوجود جاری ہیں۔ ذمے دار نے یہ بات آج جمعے کے روز کہی۔بیروت کی حکومت کو امریکہ کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے، خاص طور پر اسرائیل کے ساتھ حالیہ جنگ کے بعد، جس میں حزب اللہ کو عسکری اور قیادی ڈھانچے میں نمایاں نقصان اٹھانا پڑا۔لبنانی حکام، جن میں صدر جوزف عون پیش پیش ہیں، اس پر کام کر رہے ہیں کہ ہتھیار صرف ریاست کے پاس ہوں اور ریاست کی خود مختاری پورے ملک خصوصاً اسرائیل کی سرحد سے ملحقہ جنوبی علاقوں پر قائم کی جائے۔حزب اللہ کے رابطہ کاری یونٹ کے سربراہ وفیق صفا نے ایک بیان میں کہا کہ "ہتھیار ڈالنے کا کوئی تصور نہیں ہے، بات صرف اس دفاعی حکمت عملی کی ہے جس کا ذکر صدر نے کیا۔حزب اللہ کے زیر انتظام ریڈیو چینل سے گفتگو کرتے ہوئے وفیق کا کہنا تھا کہ کیا یہ منطقی نہیں کہ اسرائیلی پہلے انخلا کریں؟ دوسرا، قیدیوں کو رہا کریں؟ تیسرا، جارحیت بند کریں؟ اس کے بعد آئیں اور دفاعی حکمت عملی پر بات کریں؟انہوں نے واضح کیا کہ پارٹی کی طرف سے یہ موقف صدر عون اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو پہنچا دیا گیا ہے۔وفیق نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’لبنان کے دفاع کے لیے ایک حکمت عملی پر اتفاق کیا جائے، نہ کہ ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کا مقصد حزب اللہ کو اس کے ہتھیاروں سے محروم کرنا ہو‘۔امریکی وساطت سے ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت، حزب اللہ کے جنگجوؤں کو دریائے لیطانی کے جنوب میں سرحدی علاقے سے پیچھے ہٹنا تھا (جو اسرائیلی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال میں واقع ہے) اور اپنی عسکری تنصیبات ختم کرنا تھیں۔ اس کے بدلے میں لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کی عارضی امن فورس (یونیفل) کو اس علاقے میں اپنی موجودگی کو مضبوط بنانا تھی۔اسی معاہدے کے مطابق، اسرائیل کو بھی ان تمام جنوبی علاقوں سے اپنی افواج نکالنا تھیں جہاں وہ جنگ کے دوران داخل ہوا تھا، لیکن اس نے پانچ پہاڑی چوٹیوں پر اب بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے جنہیں وہ "تزویراتی” قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہاں سے وہ دونوں اطراف کی نگرانی کر سکتا ہے۔ اسرائیل نے اب بھی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جن کے بارے میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حزب اللہ کے جنگجوؤں یا اس کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔رواں ماہ اپریل میں لبنان کے دورے کے دوران، مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی نائب خاتون نمائندہ مورگن اورٹیگس نے کہا کہ واشنگٹن لبنانی حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ "دشمنی کے مکمل خاتمے” کے لیے اقدامات کیے جائیں، جن میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، اور یہ اقدامات "جلد از جلد” کیے جائیں۔یہ جنگ بندی معاہدہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر مبنی تھا، جس نے 2006ء کی اسرائیل اور حزب اللہ جنگ کو ختم کیا، یہ دریائے لیطانی کے جنوب کے علاقے کو شامل کرتا ہے۔ اس قرارداد میں ریاست سے باہر تمام مسلح گروپوں کو غیر مسلح کرنے کی بھی بات کی گئی ہے۔وفیق صفا نے کے مطابق لبنانی فوج اور حزب اللہ دونوں معاہدے پر عمل کر رہے ہیں، خاص طور پر جنوب میں حزب اللہ کی عسکری تنصیبات کے خاتمے اور ہتھیاروں کی ضبطی کے حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "جو کچھ حزب اللہ سے مطلوب تھا، وہ قرارداد 1701 کے دائرے میں حزب اللہ نے مکمل کیا، اور جو کچھ لبنانی فوج سے مطلوب تھا، اس پر بھی عمل درآمد ہوا اور اب بھی جاری ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اسرائیل نے اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔انھوں نے مزید کہ اب جو کچھ فوج کو ملتا ہے، وہ اسے ضبط کرتی ہے، اور یہ فطری بات ہے، کیوں کہ جو ہتھیار باقی ہیں وہ یا تو اسرائیلی حملوں میں تباہ ہو چکے ہیں، یا ایسی حالت میں ہیں کہ انہیں اسکریپ کہا جا سکتا ہے۔












