شعیب رضا فاطمی
ہندوستان کی جمہوریت اپنی گہرائی اور ہمہ جہتی کے باعث دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں آئین کی بنیاد پر ہر شہری کو برابری، مذہبی آزادی، اور اپنی کمیونٹی کے اداروں کی خودمختاری کی ضمانت دی گئی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں میں قانون سازی کے ایسے سلسلے شروع ہوئے ہیں جنہوں نے نہ صرف اقلیتوں بلکہ انصاف پسند اکثریتی طبقے کو بھی شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ انہی میں سے ایک تازہ مثال وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 ہے، جس پر سپریم کورٹ آف انڈیا کا حالیہ عبوری فیصلہ سامنے آیا ہے۔
اگرچہ عدالت عظمیٰ نے چند دفعات پر حکمِ امتناعی جاری کر کے وقتی طور پر کچھ ریلیف تو دیا ہے، لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سمیت ملک بھر کی مسلم کمیونٹی نے اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ فیصلے میں ان دفعات کو نہیں روکا گیا جو آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے اور مذہبی آزادی کی روح سے براہِ راست متصادم ہیں۔
وقف کا ادارہ صدیوں سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوستان کی مجموعی تہذیبی وراثت کا حصہ رہا ہے۔ وقف جائیدادیں مدارس، مساجد، یتیم خانے، اسپتال اور دیگر فلاحی اداروں کے لیے مخصوص رہیں، جنہوں نے سماج کے غریب اور محروم طبقات کو سہارا دیا۔ آئین ہند کے آرٹیکل 25، 26 اور 30 واضح طور پر مذہبی آزادی اور اپنے مذہبی اداروں کے قیام و انتظام کا حق دیتے ہیں۔اس پس منظر میں، وقف ایکٹ کو محض قانونی نہیں بلکہ آئینی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اس میں کسی بھی غیر آئینی مداخلت کا مطلب ہے بنیادی حقوق پر براہِ راست حملہ۔ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 میں کئی ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں جن پر خاص اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر: وقف بورڈ کی تشکیل میں حکومتی عمل دخل بڑھانا ترمیم کے بعد ریاستی اور مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ وقف بورڈ کے ارکان کی تقرری میں براہِ راست مداخلت کریں۔ اس سے وقف کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے۔وقف جائیدادوں کے از سرِ نو سروے کی شرط پر بھی اعتراض ہے کیونکہ اس ترمیم کے ذریعہ حکومت کو حق دیا گیا ہے کہ وہ تمام وقف جائیدادوں کا دوبارہ سروے کرے۔ خدشہ ہے کہ اس کے بہانے ہزاروں ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر ہتھیالی جائے گی۔ وقف جائیداد پر دعویٰ دائر کرنے کی محدود مدت بھی قابل اعتراض ہے جو عملی طور پر برادری کو اپنے جائز حقوق کے دفاع سے محروم کردے گا۔وقف کی تعریف میں بھی ابہام پیدا کر دیا گیا ہے
نئی دفعات کے ذریعے وقف کی تعریف کو وسیع اور مبہم بنا دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کئی معاملات میں عدالتیں یا حکومت یک طرفہ فیصلے صادر کریں گی۔
یہ وہ نکات ہیں جن پر عدالت عظمیٰ سے توقع تھی کہ وہ فوری طور پر حکمِ امتناعی جاری کرے گی۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔
سپریم کورٹ نے اگرچہ کچھ دفعات پر عبوری روک لگائی ہے، لیکن بڑے آئینی سوالات کو مؤخر کردیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے بجا طور پر کہا کہ عدالت نے “جزوی ریلیف تو دیا ہے، لیکن بڑے آئینی خدشات کو نظرانداز کردیا ہے۔”اور یہ رویہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے؟جیسے :
کیا عدالت بنیادی حقوق کے سوال کو عبوری مرحلے پر نظر انداز کر سکتی ہے؟ کیا صرف چند دفعات پر حکمِ امتناعی کافی ہے جب کہ باقی دفعات پورے قانون کی روح کو ہی بدل ڈالتی ہیں؟ کیا عدالت کا یہ فیصلہ حکومت کو مزید مضبوط نہیں کرتا کہ وہ ترمیم کو مرحلہ وار نافذ کرے؟اور اسی وجہ سے اس فیصلہ کا آئین کی روشنی میں تجزیہ ناگزیر ہو جاتا ہے ۔ہندوستانی آئین کے تحت مذہبی اقلیتوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کی آزادی دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے ماضی میں کئی فیصلوں میں یہ واضح کیا ہے کہ مذہبی آزادی اور ادارہ جاتی خودمختاری آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔
مثلاً: کیشوانند بھارتی کیس (1973): عدالت نے کہا تھا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو پارلیمنٹ بھی نہیں بدل سکتی۔
ٹی ایم اے پائی کیس (2002): اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا۔ مسجد اور مذہبی جائیدادوں کے مقدمات میں بارہا کہا گیا کہ ریاست صرف محدود ریگولیٹری اختیارات رکھتی ہے۔اس پس منظر میں، وقف ترمیمی ایکٹ کی وہ دفعات جو براہِ راست خودمختاری کو متاثر کرتی ہیں، آئینی بنیاد پر ناقابلِ قبول ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا ان پر فوری روک نہ لگانا آئینی اصولوں سے انحراف کے مترادف معلوم ہوتا ہے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ دس برسوں میں اقلیتوں کے اداروں کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ چاہے وہ اقلیتی تعلیمی ادارے ہوں، مدارس ہوں یا اب وقف جائیدادیں، ہر جگہ ایک منظم مداخلت کا سلسلہ جاری ہے۔ وقف ترمیمی ایکٹ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا مقصد صرف قانونی اصلاح نہیں بلکہ ان اداروں کو ریاستی کنٹرول میں لانا ہے جو اب تک سماج کے محروم طبقے کی خدمت کرتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے درست کہا کہ “کئی اہم دفعات جو بظاہر پوری برادری کی سمجھ کے خلاف اور مکمل طور پر من مانیاں ہیں، انہیں عبوری طور پر نہیں روکا گیا۔”اور یہی وجہ ہے کہ مسلم کمیونٹی خدشات کے بھنور میں پھنس گئی ہے اسکی سوچ ہے کہ : وقف جائیدادوں پر قبضے کو قانونی جواز فراہم کیا جائے گا۔سیاسی دباؤ کے تحت وقف بورڈ کو حکومت کا آلہ کار بنایا جائے گا۔ فلاحی اداروں کے وسائل کمزور کر کے برادری کو سماجی اور تعلیمی سطح پر مزید پسماندہ کر دیا جائے گا۔ یہ خدشات صرف نظریاتی نہیں بلکہ عملی بنیادوں پر قائم ہیں۔ ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں وقف جائیدادوں کو سرکاری پالیسیوں کی آڑ میں ہتھیالیا گیا۔
یہ عبوری فیصلہ اگرچہ مایوس کن ہے، لیکن ابھی آخری فیصلہ آنا باقی ہے۔ اس دوران مسلم کمیونٹی اور انصاف پسند شہریوں کو درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
آئینی لڑائی کو مضبوط کرنا ہوگا۔ سینئر وکلاء اور آئینی ماہرین کی ٹیم بنا کر دلائل کو زیادہ مربوط طریقے سے پیش کرنا پڑیگا ۔عوامی بیداری کے لئے مزید پروگرام بنانے ہونگے ۔
وقف جائیداد کی اہمیت اور اس پر حملوں کے نتائج سے عوام کو آگاہ کرنا بھی اسی لائحہ عمل کا حصہ ہونا چاہئے اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی کو ساتھ لے کر حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ترمیم کو واپس لے۔وقف جائیدادوں کی حقیقی حیثیت، ان کے سماجی و تعلیمی کردار پر مستند اعداد و شمار کے ساتھ تحقیقاتی رپورٹس پیش کی جائیں تاکہ مقدمے میں مضبوط شواہد موجود ہوں۔اگر حکومت کا رویہ مسلسل معاندانہ رہا تو کمیونٹی کو اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے نئے قانونی اور ادارہ جاتی ماڈل پر غور کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ کا حالیہ عبوری فیصلہ دراصل ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف اس نے چند دفعات پر روک لگا کر وقتی ریلیف دیا ہے، دوسری طرف بڑے آئینی سوالات کو نظرانداز کرکے حکومت کے لیے راستہ بھی کھلا چھوڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور پوری مسلم کمیونٹی نے اس فیصلے کو نامکمل اور غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔
یہ معاملہ صرف وقف یا مسلم کمیونٹی کا نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین، اس کے بنیادی ڈھانچے اور جمہوری اقدار کا ہے۔ اگر ایک کمیونٹی کے مذہبی اور فلاحی ادارے اس طرح ریاستی کنٹرول کا شکار ہوں گے تو کل کو کسی اور کمیونٹی یا ادارے کی باری بھی آسکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ انصاف پسند عوام، آئینی ادارے اور سول سوسائٹی مل کر اس ترمیمی ایکٹ کے خلاف مضبوط آواز اٹھائیں۔ کیونکہ اگر آئینی آزادیوں کی جڑیں کمزور ہو گئیں تو ہندوستان کی جمہوریت صرف کاغذی دعوؤں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔
مجھے تو صاف صاف لگ رہا ہے وقف ترمیمی بل کے خلاف ملی تنظیموں کی ساری جدوجہد ضائع ہوئی ہے اور سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سرکار کے حق میں فیصلہ دے کر یہ پیغام دے دیا ہے کہ اب عدالتوں میں بھی وہی فیصلے ہونگے جو سرکار کی منشا کے مطابق ہوگی ۔