غزہ(ہ س)۔فاطمہ عرفہ غزہ شہر کے ایک ہسپتال میں زیادہ تر خواتین کی طرح اپنے حمل کی نگرانی کے لیے طبی معائنے سے گزر رہی ہیں۔ ان کے چہرے پر وہ تھکن واضح ہے جو جنگ کے دوران غذائی قلت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ غزہ میں 22 ماہ سے جنگ جاری ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کے داخلے پر پابندی صرف جزوی طور پر کم ہوئی ہے اور حاملہ خواتین خوراک سے لے کر پانی تک تمام اشیاء کی قلت سے شدید متاثر ہو رہی ہیں۔اپنے خاندان کے ساتھ شمالی غزہ میں اپنے گھر سے بے گھر ہونے کے بعد جس کیمپ میں انہوں نے پناہ لی ہے وہاں واپس جاتے ہوئے عرفہ نے خبر رساں ایجنسی ’’فرانس پریس ‘‘ کو بتایا کہ میں چھٹے ماہ میں ہوں اور اس حمل کو مکمل کرنے کے لیے بنیادی ضروریات کی کم از کم مقدار بھی فراہم کرنے سے قاصر ہوں۔34 سال عمر کی پیلے چہرے والی فاطمہ عرفہ نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نے اسے بتایا ہے کہ اسے خون منتقل کرنے کے طریقہ کار سے گزرنا پڑے گا کیونکہ میرے اندر غذائیت کی کمی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جب میں کھانا چاہوں یا خریدوں تو مجھے کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ غزہ میں اس کے عملے نے شدید غذائی قلت میں غیر معمولی اور تیز اضافہ دیکھا ہے۔ تنظیم کے دو کلینکس میں 700 سے زائد حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور تقریباً 500 بچے شدید یا درمیانے درجے کی غذائی قلت کا شکار تھے جب انہیں داخل کیا گیا۔ تنظیم کے ایک بیان کے مطابق غزہ شہر کے کلینک میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں یہ تعداد تقریباً چار گنا بڑھ گئی ہے۔ مئی میں 293 کیسز سے جولائی کے آغاز میں یہ کیسز 983 ہو گئے ہیں۔غزہ میں تنظیم کی ڈاکٹر جوآن بیری نے بتایا کہ حاملہ خواتین میں غذائی قلت کے پھیلاؤ، پانی کی قلت اور خراب صفائی کی وجہ سے بہت سے بچے وقت سے پہلے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہماری نوزائیدہ نگہداشت یونٹ گنجائش سے زیادہ بھر چکا ہے جہاں چار سے پانچ بچے ایک ہی انکیوبیٹر کا اشتراک کر رہے ہیں۔دوسری جانب الحلو ہسپتال میں جہاں عرفہ کا معائنہ ہو رہا ہے وہاں کے زچگی کے ماہر ڈاکٹر فتحی الدحدوح نے "فرانس پریس” کو بتایا کہ جنگ کے آغاز سے ہی اسقاط حمل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اب غزہ شہر میں روزانہ آٹھ سے نو کیسز اسقاط حمل کے سامنے آ رہے ہیں۔ڈاکٹ الدحدوح نے کہا کہ جنگ خاص طور پر حاملہ خواتین اور حال ہی میں بچہ پیدا کرنے والی خواتین کے لیے مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے مئی میں خبردار کیا تھا کہ اگلے 11 ماہ کے دوران غزہ میں 17 ہزار حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو شدید غذائی قلت کے علاج کی ضرورت ہوگی۔ یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل نے حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں غزہ پٹی میں انسانی امداد کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اسرائیل نے مئی کے آخر میں امداد کے جزوی داخلے کی اجازت دی ہے۔ڈاکٹر الدحدوح نے فرانس پریس کو بتایا کہ خواتین یہاں آتی ہیں اور انہیں ملک کی صورتحال اور غذائی قلت کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر، کمزوری، تھکن اور تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔ فاطمہ عرفہ کے لیے صرف اپنے طبی اپائنٹمنٹ تک پہنچنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔ الحلو ہسپتال کے ارد گرد کا علاقہ جنگ سے زیادہ متاثر نہیں ہوا لیکن ایندھن کی قلت انہیں اپنے کیمپ سے تیز دھوپ میں پیدل چلنے پر مجبور کرتی ہے۔کیمپ میں واپس آنے پر جہاں ہر خاندان کے لیے مختص مقامات کے درمیان پلاسٹک کی شیٹس کی دیواریں ہیں فاطمہ، ان کے شوہر زہدی اور ان کے چار بچے ایک خیراتی تنظیم کی تیار کردہ خوراک کھاتے ہیں۔ یہ خوراک پاستا اور دال کا سوپ ہوتا ہے۔ پاستا اور دال کا سوپ غزہ کی زیادہ تر آبادی کے لیے دستیاب واحد خوراک ہے۔ گیس کی عدم دستیابی کے پیش نظر اسے آگ جلانے کے لیے دستیاب چیزوں سے تیار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں اور خیراتی تنظیمیں کہتی ہیں کہ غزہ پہنچنے والی امداد کی مقدار اب بھی ناکافی ہے اور نگہداشت فراہم کرنے والے مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر غیر معمولی حملہ کیا اور 1219افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے اسی وقت غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کردی تھی۔ 22 ویں مہینے میں چل رہی اس جنگ میں اسرائیل نے تاریخ کی بدترین نسل کشی جاری رکھی ہوئی ہے۔ صہیونی فوج اب تک 57762 سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر چکی ہے۔ ان مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔