ملک کے مسلمانوں کی لیڈر شپ اور اتحاد پر سوالیہ نشان
’متحد نہ ہونے کے سبب ملت اسلامیہ ہند میں قیادت کا فقدان ‘
شرومنی اکالی دل کے صدر سکھبیرسنگھ بادل کے بیان پرقومی سیاست میں ہلچل ، محمد ادیب ، شاہد صدیقی ، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس جیسے مسلم رہنمائوں کا رد عمل
سیکولر پارٹیوں نے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا
سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب
ہمیں دوبارہ جناح جیسی لیڈر شپ نہیں چاہئے ، تعلیم پر توجہ دیں مسلمان
سابق ممبر پارلیمنٹ اورآر ایل ڈی کےنائب صدرشاہد صدیقی
بادل کے بیان سے ہم متفق نہیں ہیں کیونکہ ہماری قیادت اور جماعت ہے
آل اانڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکے قومی ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس
ممتاز عالم رضوی
نئی دہلی :شیرومنی اکالی دل پنجاب کے قومی صدر سکھویر سنگھ بادل کے بیان نے ایک بار پھر ملک کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ دیا ہے ۔ مسٹر بادل نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم دو فیصد ہیں اور متحد ہیں اس لیے کامیاب ہیں لیکن مسلمان 18؍فیصد ہیں اور متحد نہیں ہیں تو ناکام ہیں اور آج ان کی کوئی لیڈرشپ نہیں ہے ۔ اس بیان پر قومی سیاست میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے چنانچہ ہمارا سماج نے اس سلسل میں مسلم رہنمائوں سے خصوصی بات چیت کی۔ سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب نے کہا کہ بادل کا کہنا درست ہے لیکن ہمارے اور ان میں فرق ہے ۔ فرق یہ ہے کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو مذہب کی بنیاد پر ہوئی ۔اس وقت مولانا آزاد نے مذہب کی بنیاد پر ہونے والی تقسیم کی شدید مخالفت کی۔انھوں نے محمد علی جناح سے کہا تھا کہ مذہب کی بنیاد پر ہونے والی اس تقسیم کے سبب ہندوستانی مسلمانوں کو تاحیات ہندوئوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔ 15؍اگست 1947؍کو جب ملک تقسیم ہوا تو اس کا سارا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا گیااور دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کاوش شروع ہوئی،آج تک ہو رہی ہے۔سیکولر پارٹیوں نے بھی ایمانداری نہیں دکھائی ۔ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے سانجھی وراثت کو اپنایا اور ملک میں رہ گئے ۔جہاں تک قیادت کا سوال ہے تو یہ سچ ہے کہ مسلم قیادت کا فقدان ہے ۔آزادی کے بعد مسلمان ڈیفنسیو ہو گئے تھے چنانچہ اتحادکا تصور ہی نہیں رہ گیا تھا۔محمد ادیب نے کہا کہ ملک کی مسلم قوم ایک ڈری ہوئی قوم ہے جو آج بھی ماضی میں ہے ، مستقبل کا خاکہ تیار نہیں کیا ۔ اس لیے میں بادل کے بیان سے اتفاق کرتا ہوں۔ اگر مسلمان اقلیتی بھائیوں اور دلتوں کے ساتھ جاتے تو کامیاب ہو جاتے۔سابق رکن پارلیمنٹ اور راشٹریہ لوک دل کے نائب قومی صدر شاہد صدیقی نے کہا کہ بادل کا بیان بہت ہی سطحی ہے۔ وہ شاید نہیں جانتے کہ ملک کا مسلمان ایک جگہ ان کی طرح محدود نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ۔وہ پنجاب میں پچاس فیصد ہیں اس لیے متحد نظر آتے ہیں ۔ملک کے مسلمانوں کی الگ الگ علاقائی پہچان ہے، الگ الگ مسائل ہیں ،اس لیے ایک لیڈر ممکن نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ایک لیڈر بنتا ہے تو وہ جناح جیسا ہوتا ہے تو ہمیں وہ نہیں چاہئے ،وہ قوم کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ اس طرح کی باتیں مسلمانوں میں بھی کی جاتی ہیں جو مناسب نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ بچکانی باتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ ملک کی تقسیم ہے ۔تعلیم یافتہ مسلمان پاکستان چلے گئے جس کے سبب مشکل پیدا ہوئی ،قیادت تعلیم یافتہ طبقہ سے ہوتی ہے وہ بچی نہیں تھی ۔ ہمیں تعلیم پر توجہ دینی چاہئے ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے قومی ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ میں بادل کے بیان سے متفق نہیں ہوں ۔ مسلم لیڈرشپ ہے ۔ سیاسی اور مذہبی دونوں موجود ہے ۔ ملت کی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں اور جماعتیں بھی ہیں ۔اس کے علاوہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں بھی مسلم نمائندگی موجود ہے ۔ اب یہ بات الگ ہے کہ جو بھی سیاسی جماعتیں ہیں وہ مسلمانوں کوووٹ بینک تصور کرتی ہیں۔ہندوتوا کا خوف دلاکر ووٹ لینا چاہتی ہیں لیکن ان کے مسائل کو اٹھانے سے گریز کرتی ہیں تاہم 2024؍کے بعد مسلمان بھی غور کرے گا کہ آخر بی جے پی کے خوف سے دوسروں کو کب تک ووٹ دیتا رہے گا ۔کب تک بی جے پی کو ہرانے کے لیے ووٹ کرتا رہے گا ۔