جمہوری نظام حکومت میں عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب آزادانہ طور پر کریں۔ اس اہم فریضے کی نگرانی کے لیے جس ادارے کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے، وہ انتخابی کمیشن یا الیکشن کمیشن کہلاتا ہے۔ یہ ادارہ جمہوریت کا ایک ستون ہوتا ہے، جو نہ صرف انتخابات کو منظم کرتا ہے بلکہ ان کی شفافیت، غیرجانبداری اور قانونی حیثیت کو بھی یقینی بناتا ہے۔
جمہوریت میں اگر انتخابات غیر منصفانہ ہوں یا ان میں دھاندلی کا شائبہ تک ہو، تو عوام کا اعتماد نظام پر سے اٹھ جاتا ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری، دیانت داری اور اختیارات بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ ایک بااختیار اور آزاد الیکشن کمیشن ہی اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کوئی جماعت، حکومت یا طاقتور طبقہ عوامی رائے کو یرغمال نہ بنا سکے۔الیکشن کمیشن نہ صرف ووٹر لسٹ تیار کرتا ہے، بلکہ انتخابی ضابطہ اخلاق نافذ کرتا ہے، انتخابی اخراجات کی نگرانی کرتا ہے، اور ضرورت پڑنے پر انتخابی بے ضابطگیوں پر کاروائی بھی کرتا ہے۔اگر یہ ادارہ اپنے فرائض کو بغیر کسی سیاسی دباؤ کے انجام دے، تو ملک میں جمہوری اقدار فروغ پاتی ہیں۔ لیکن اگر یہ ادارہ کسی خاص پارٹی یا حکومت کے زیر اثر آ جائے، تو انتخابات ایک تماشہ بن کر رہ جاتے ہیں اور جمہوریت کھوکھلی ہو جاتی ہے۔
جمہوری طرز حکومت کی روح اس وقت تک محفوظ رہ سکتی ہے جب تک انتخابی کمیشن آزاد، غیر جانبدار اور دیانت دار ہو۔ یہی ادارہ عوام اور اقتدار کے درمیان ایک شفاف پل کا کام کرتا ہے، جس پر جمہوریت کی عمارت قائم رہتی ہے۔یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت کی بنیاد شفاف، آزاد اور منصفانہ انتخابات پر استوار ہوتی ہے، اور ان انتخابات کے نگہبان ادارے یعنی الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور خود مختاری پر ہی عوام کا اعتماد ٹکا ہوتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ برسوں میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کا کردار ایک آزاد آئینی ادارے کے بجائے برسر اقتدار جماعت کے ترجمان جیسا نظر آنے لگا ہے۔
حالیہ واقعات میں جہاں اپوزیشن جماعتوں کو شکایت کا موقع ملا ہے، وہیں عام شہری بھی یہ محسوس کر رہا ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کا نفاذ یکطرفہ ہو چکا ہے۔ کسی جلسے میں اپوزیشن لیڈر کی ایک معمولی بات پر فوری نوٹس، لیکن برسراقتدار جماعت کے رہنماؤں کی نفرت آمیز اور اشتعال انگیز تقاریر پر خاموشی اختیار کر لینا، یہ کس انصاف کا تقاضا ہے؟
کیا الیکشن کمیشن صرف ایک رسمی ادارہ بن کر رہ جائے گا؟ کیا اس کا واحد کام انتخابی تاریخوں کا اعلان اور کچھ پریس کانفرنسیں کرنا ہی رہ گیا ہے؟ اگر یہ ادارہ عوام کے اعتماد کو کھو بیٹھا تو جمہوری ڈھانچہ خود بخود کمزور ہو جائے گا۔حال ہی میں بعض ریاستوں میں ووٹر لسٹوں میں بے ضابطگیوں، ای وی ایم مشینوں کی شفافیت پر سوالات، اور بیلٹ پیپر کی واپسی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں الیکشن کمیشن کا رویہ تماشائی کا نہیں، بلکہ ایک منصف کا ہونا چاہیے۔ مگر جب وہی ادارہ منتخب حکومت کے ہر اقدام کی توثیق کرتا نظر آئے، تو اس کی ساکھ پر دھبہ لگنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
آج جب ملک میں جمہوری اداروں کو ایک ایک کر کے کمزور کیا جا رہا ہے، تو الیکشن کمیشن کی ذمے داری اور بڑھ جاتی ہے۔ اگر وہ واقعی غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنے فیصلوں، کارروائیوں اور بیانات سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ صرف آئین کے تابع ہے، کسی بھی پارٹی کے نہیں۔
حیرت اس امر پر بھی ہے کہ عین اس وقت جب بی جے پی کی حکومت پر حزب اختلاف یہ الزام عائد کر رہا ہے کہ اس نے تمام آئینی اداروں کو اپنی گرفت میں لے کر انہیں غیر آئینی اقدام کے لئے مجبور کر ہے تو بی جے پی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی پر یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ کانگریس نے ماضی میں ایمرجنسی نافذ کر کے خود جمہوری اقدار کا گلا گھونٹا تھا ۔یعنی وہ خود یہ اعتراف کر رہی ہے کہ جب کانگریس جمہوری اقدار کا گھلا گھونٹ چکی ہے تو اگر بی جے پی یہی کام کر رہی تو کانگریس واویلا کیوں مچا رہی ہے ۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ”جمہوریت میں ادارے اگر طاقتور ہوں تو حکومت جوابدہ رہتی ہے، لیکن اگر ادارے ہی حکمرانوں کے آلۂ کار بن جائیں، تو پھر نہ آئین محفوظ رہتا ہے، نہ عوام کی رائے۔”
الیکشن کمیشن کو اس موڑ پر کھل کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس کے ساتھ کھڑا ہے: آئین کے ساتھ یا اقتدار کے ساتھ؟ کیونکہ اس فیصلے پر ہی بھارت کی جمہوریت کا مستقبل منحصر ہے۔