راہل گاندھی کی کنیا کماری سے کشمیر تک کی بھارت جوڑو یاترا مکمل ہوئی۔ اس دوران راہل گاندھی 75 ضلعوں 14 ریاستوں کا سفر 136 دنوں میں 3570 کیلو میٹر پیدل چل کر پورا کیا۔۔۔۔اس یاترا میں مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔۔۔ اس میں کل 120 مستقل یاتری تھے جس میں 17 مسلمان بھی شامل تھے بہار سے عمیر خان،ویسٹ بنگال سے محمد ہاشم ذیشان جھارکھنڈ سے محترمہ زیبا انصاری، اتر پردیش سے شاہنواز عالم، محمد طارق اور محمد عارف منیپور سے محمد کبیر احمد، کیرالہ سے ایم اے سلام، کے ایم محمد شیجیں، محترمہ فاطمہ، آئن ٹی اسماعیل اور نبیل نوشاد ، گجرات سے شاہنواز شیخ طاہر علی ، راجستھان سے محترمہ روبی خان، تمل ناڈو سے محمد عارف اور مدھیہ پردیش سے نوری خان ، مستقل یاتری کے طور پر شامل رہے ۔
اس یاترا کا مقصد ایک تھا نفرت چھوڑو بھارت جوڑو ، محبت کے پیغام کو عام کرناآج ملک اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ سیاسی ، سماجی و اخلاقی بحران اور افکار و نظریات کی ایسی زبوں حالی ہے کی ہندستان کی تاریخ نے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔یقینی اور بد اعتمادی کی فضا نے ملک کے ایک بڑے طبقے میں افسردگی اور مایوسی کا احساس پیدا کردیا ہے۔ ہر آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے آزاد اور خود مختار آئینی ادارے جن پر جمہوری نظام کی بنیادیں ٹکی ہیں وہ اقتدار کی محکوم ہوچکی ہیں یا جبراً بنا لی گءہیں۔ آزاد اور سنجیدہ قومی صحافت قصہ پارینہ بن چکی ہے – حزب اختلاف کی اکثر سیاسی پارٹیوں نے بھی رسمی مخالفت کی راہ اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت تلاش کررکھی ہے۔ ایسے مایوس کن اور دل برداشتہ کرنے والے حالات میں ان ہوائے مخالف کے خلاف کوئی شخص اگر اکیلا کھڑاہے تو اس کا نام راہل گاندھی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سب کا ذمےدار صرف بھاجپا یا مودی حکومت ہے؟ جواب ہوگا نہیں۔۔۔ موجود ماحول کو خراب کرنے میں سب سے بڑا کردار ہے کانگریس کا۔۔۔ صرف مودی حکومت سے قبل ہی دیکھیں کس طرح ایک خاص مذہب کے لوگوں کو ٹی وی چینل پر آتانکوادی بنا نے کے کام سے شروع ہوا ہزاروں کی تعداد میں ایک خاص فرقہ آج بھی جیلوں میں قید ہے۔۔۔ کچھ 14-15 سال جیل میں بند رہے اور کورٹ میں کوئی ثبوت نہیں ملنے پر باعزت بری ہو رہے ہیں۔۔۔ پہلے میڈیا ٹرائل میں صرف مسلمان تھے اب الیکٹرونک میڈیا میں بحث ہندو- مسلم تو ہے ہے ساتھ سابق وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور گاندھی جی جیسے مجاہد آزادی بھی شامل ہیں۔۔۔۔ یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں صرف مسلمان غدّار تھے آج وہ سب غدّار ہیں جو بھاجپا کی مخالفت کرتے ہیں۔۔۔ ایسے میں آپ کہ سکتے ہیں کی بنیاد کانگریس نے ڈالی پھل مودی حکمت میں کٹ رہا ہے۔۔
ویسے یہ بھی کہنے میں کوئی شک نہیں کے راہل گاندھی نے اپنے اس یاترا سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہوائیں خواہ کتنی ہی مخالف کیوں نہ ہوں اگر آپ کے پاس اپنے وطن کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے، آپ کی نیت میں اخلاص ہے اور آپ کے نظریا ت کی جڑیں گہری ہیں تو کوئی وجہ نہیں کی نفرت کی ان سیاہ آندھیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ راہل گاندھی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کانگریس کے علاوہ ملک میں کوئی ایسی جماعت موجود نہیں ہے جس کی قیادت میں ملک کو مستقبل کے خدشات سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ذمہ داری کے اسی احساس ، یقین اور عزم مصمم کے ساتھ انھوں نےتاریخی بھارت جوڑو یاترا کی۔ عوام کا ریلا شہروں، قصبوں، قریوں سے ان کے پیچھے ہو لیا۔ ایسی پزیرائی جس کی توقع شاید راہل گاندھی کی اپنی پارٹی کے لیڈران کو بھی نہیں تھی۔
2014 سے آج تک جیتنے پروٹست ہوئے تقریباً مسلمانوں نے کیا چاہئے وہ CAA ہو یا کوئی اور۔۔۔ اکیلا مسلمان ہے جو حکومت کی ہر وہ پالیسی جس سے دیش کو نقصان پہنچنے کا امکان ہو چاہئے وہ مذہبی ہو یہ ثقافتی سبھی کا کھل کر پرزور مخالفت کررہا ہے یا جو لوگ مخالفت کرتے ہیں اس کی حمایت کرتا ہے۔۔۔ حزبِ اختلاف کی پارٹیاں تو ہندو مسلم کے چکر میں پھستی آرہی ہیں۔
ویسے اب صورت بدل رہی ہے پھر سے اس مکل میں محبت کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔۔۔ یہ زمین صوفی اور سنتوں کی سرزمین ہے۔۔۔ امن کا پیغام اس سرزمین نے ہر دور میں پورے دنیا کو دیا ہے نفرت کا ماحول وقتیہ ہے اب وقت آچکا ہے کے اپنے سوشل میڈیا سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں کو اپنی سیاسی قیادت کو مضبوط کرنا ہوگا ۔۔۔ مسلمانوں کو اپنے لیڈر سے استعفیٰ مانگنا بند کرنا ہوگا کم سے کم مسلمان دلت سے سیکھے کی ان پر آج بھی کتنا ظلم ہو رہا ہے مگر دلت سماج کبھی بھاجپا کے دلت ممبر پارلیمنٹ یہ ممبر اسمبلی سے استعفی کی مانگ نہیں کرتا۔۔۔۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ حکومت کے ساتھ رہنے کے کیا فائدے ہیں۔
کانگریس پارٹی اور مسلمانوں سے اس کے رشتے کا تعلق ہے تو یہ رشتے تاریخی ہیں۔ تقریباً ایک صدی پر محیط اس رشتے کا سہرا تحریک آزادی اور خلافت تحریک سے جا ملتا ہے۔ جہاں کانگریس کی قیادت میں ہندوؤں اور مسلمانوں نے متحدہ قومیت کی بنیاد ڈالی، جہاں آزادی کی لڑائی مسلمانوں نے جذبہ جہاد سے لڑی تو خلافت تحریک برادران وطن کی اپنی تحریک بن گئی۔اور پھر کانگریس کی قیادت مذہبی آزادی، رواداری، بھائی چارے، سیکولرزم اور مساوات پر مبنی معاشرے کے قیام کی جدو جہد میں مصروف تھی پہلے اس لیے مسلمان کانگریس کے زیر سایہ عاطفیت محسوس کرتے تھے۔
آزادی کے بعد کانگریس پارٹی اپنے نظریاتی موقف سے ہٹتی چلی گئی اور اس کے پچاس سالہ دور حکومت میں وقتا ًفوقتاً کانگریس کے بعض حکمرانوں سے ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں جس سے مسلمانوں کا کانگریس سے اعتماد اٹھنے لگا۔فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لا متناہی سلسلہ ، بابری مسجد کی شہادت کا دل سوز واقعہ اور دہشت گردی کے فرضی معاملا ت میں مسلم نوجوانوں کو ٹاڈا ور پوٹا جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتاریوں کے پے درپے واقعات نے مسلمانوں کو کانگریس سے بد ظن کردیا اور مسلمان دیگر علاقائی سیاسی جماعتوں کا متبادل تلاش کرنے لگے۔ جس کےنتیجے میں کانگریس کا ایک بڑا اور ایک مشت ووٹ دیگر علاقائی جماعتوں میں شفٹ ہوتا چلا گیا اور کانگریس کئی بڑے صوبوں سے اقتدار سے بے دخل ہوگئی۔لیکن ایسانہیں ہے کہ ووٹوں کی سیاست کا شکار صرف مسلمان ہوئے ہوں اور یہ نا انصافیاں صرف ہمارے حصے میں ہی آئی ہوں۔آزادی کے 75 سالوں بعد بھِی دلتوں، آدی واسیوں اور ملک کے دبے کچلے محروم طبقات کو آج بھی معاشرےمیں وہ مقام حاصل نہیں ہوسکا جو ان کا آئینی اوربنیادی انسانی حق ہے۔ سکھوں کے مقدس ترین مقام پر فوجی آپریشن اور پھر 1984 کے سکھ مخالف فسادات نے سکھوں کو جھنجھور کر رکھ دیا۔ ان کےاسلاف نے کبھی خواب و خیال میں بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ آزاد ہندستان میں کبھی ریاستی سرپرستی میں ان کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا۔ لیکن سکھوں نے حالات کا مقابلہ کیا اور مستقبل کی جانب قدم بڑھایا۔
سیاستدانوں کی نا اہلی اور بدنیتی کے نتیجے میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کو اٹھانا پڑتا ہے۔ لیکن نہ تو یہ حکمت اور تدبر کا تقاضہ اور نہ ہی ایک زندہ قوم کا یہ شیوہ ہ ہونا چاہیئے کے ہم ماضی پر ماتم کرتے رہیں اور اپنے لیے مستقبل کے تمام دروازے بند کرلیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ جب کانگریس اپنی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے اپنے ماضی کی طر ف لوٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور راہل گاندھی کی قیادت میں ایک نئی امید کےساتھ لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کررہی ہے تو ہمیں بھی ماضی کی تلخیوں کو فراموش کر مستقبل کی جانب نئے حوصلے کے ساتھ قدم بڑھانا چاہیے۔ سیاست کا مزاج بدل چکا ہے اور ملک کی تقریباً ساری سیاسی پارٹیاں نئی ہو چکی ہیں بھاجپا پہلے والی بھاجپا نہیں رہی بہار میں لالو پرساد یادو والی راشٹریہ جنتا دل ہو یا اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو والی سماجوادی پارٹی، شیبو سورن والی جھارکھنڈ کی جھارکھنڈ مکتی مورچہ۔۔۔ سب کے سیاسی نظریے بدل چکے ہیں
مسلمانوں کو بھی اپنی روائیتی روش کو چھوڑ کر ایک نئے انداز فکر کے ساتھ مستقبل کے سیاسی اور سماجی ماحول کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں کسی بھی سیکولر سیاسی جماعت سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ ہمارے مسائل پر ہماری خوشنودی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے ہمارے حق میں کوئی آواز اٹھائینگے یہ کچھ کرینگے۔
ابھی اہم مسلہ آئین کے تحفظ اور اور اس کے جمہوری اور سیکولر نظام ہے جس کے بغیر ہمارا اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس وقت ہماری نئی نسل کو ایک ایسے پرسکون اور تشدد اور تعصب سے پاک ماحول کی ضرورت ہے جس میں وہ بلا خوف ایک پراعتماد فضا میں برابر کے شہری کی حیثیت سے اپنا مستقبل تعمیر کرسکیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ ملک کے بنیادی ڈھانچے کو جن خطرات کا سامنا ہے اگر ہم اسے بچانے میں کامیاب ہوگئے تو باقی نقصانات اور کمیوں کا ازالہ بعد میں کیا جا سکتا ہے۔












