پارلیمنٹ میں ’آپریشن سیندور‘ پر ہوئے حالیہ مباحثے نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ حکومت نہ صرف اس معاملے پر شفافیت سے گریز کر رہی ہے بلکہ اپوزیشن کے سیدھے سوالوں کا جواب دینے سے بھی کترا رہی ہے۔ اس دوران کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی جارحانہ حکمتِ عملی اور سوالات نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بے بس اور لاجواب کر دیا۔یوں تو اپوزیشن کی طرف سے بولتے ہوئے سماجواادی پارٹی کے مکھیا اکھلیش یادو نے بھی سرکار کے سامنے ایسے سوالات رکھے جس کا جواب دینے سے نریندر مودی عاجز نظر آئے ۔نریندر مودی کی بیچارگی اس وقت اور واضح ہو گئی جب انہوں نے اپنی لمبی تقریر میں پھینکا گاندھی کے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ آخر گلیاں گھاٹی میں مرنے والے ہندوستانی شہریوں کے لواحقین سے ملنے میں انہیں کیا قباحت تھی ؟اور ابھی تک 100دن گزرنے کے بعد بھی ان دہشت گردوں کا کوئی سراغ کیوں نہیں لگا ؟
یاد رہے کہ حالیہ پارلیا منٹ کے آغاز کے دن ہی نریندر مودی نے ایوان سے باہر میڈیا کو یہ بیان دیا تھا کہ یہ سیشن آپریشن سیندور کے جشن کا سیشن ہے لیکن افسوس کہ اس سیشن کے جشن میں خود نریندر مودی شریک نہیں ہوئے اور پارلیمانٹ میں مباحثہ کے آخری دن صرف اپنی تقریر کرنے آئے ۔کیا اپوزیشن کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ آپریشن سیندور کیا ہی اس لئے گیا تھا تاکہ نریندر مودی کی شبیہ کو بچایا جا سکے ۔کیونکہ 22 منٹ کے اس ایکشن میں پاکستان کے صرف 9 دہشت گرد ٹھکانوں پر حملہ کر کے فورا ہی بھارت کی جانب سے پاکستانی فوجی سربراہ کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ ہم نہ تو آپ کے فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرینگے اور نہ ہی شہر پر ،راہل گاندھی نے اس نکتے کی نہایت باریک بینی سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے تو بائیس منٹ میں ہی سرینڈر کر دیا تھا ۔لیکن اس سیز فائر کا اعلان امریکہ کے ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا ۔
راہل گاندھی نے واضح چیلنج دیا کہ اگر ’سیز فائر‘ بھارت نے کروایا ہے تو وزیر اعظم ایوان کے سامنے اعلان کریں کہ ’’سیز فائر کا سہرا بھارت کے سر ہے اور ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں‘‘۔ یہ ایک ایسا چیلنج تھا جس کا جواب دینا وزیر اعظم کے لیے نہایت ضروری تھا تاکہ قوم کے سامنے شکوک و شبہات کا خاتمہ ہو۔ لیکن افسوس کہ وزیر اعظم مودی نہ تو کوئی واضح مؤقف پیش کر سکے اور نہ ہی اس سوال کا جواب دینے کی جرات دکھا سکے۔ ان کی یہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی مستند جواب موجود نہیں۔
یہ خاموشی اور بے چارگی اس وقت اور بھی تشویش ناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کھلے عام یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سیز فائر ان کے دباؤ پر ہوا تھا۔ اگر ٹرمپ کا دعویٰ جھوٹا ہے تو وزیر اعظم مودی کو ایوان میں پوری طاقت سے اس کی تردید کرنی چاہیے تھی، لیکن ان کے لبوں پر سکوت طاری رہا۔ یہی سکوت اس بات کی علامت ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی بڑا سچ عوام سے چھپایا جا رہا ہے۔
ایک جمہوری ملک میں یہ رویہ ناقابلِ قبول ہے۔ ’آپریشن سیندور‘ جیسی حساس کارروائیوں پر عوام کو اندھیرے میں رکھنا اور پارلیمنٹ میں جواب دہی سے گریز نہ صرف جمہوری اقدار کو مجروح کرتا ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کے مسائل پر سیاست کا غماز بھی ہے۔ وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایوان میں پوچھے گئے سوالات کا جواب دینا ان کی آئینی ذمہ داری ہے، اور اس سے بچنے کی ہر کوشش عوامی اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔
راہل گاندھی نے اپنی تقریر میں نہ صرف حکومت کی پالیسی پر سوال اٹھائے بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ اپوزیشن اگر متحد اور جارحانہ ہو تو حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کر سکتی ہے۔ اب گیند وزیر اعظم کے کورٹ میں ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ وضاحت کریں کہ آخر ’سیز فائر‘ کس کے دباؤ پر ہوا؟ اگر بھارت کی سفارتی کامیابی تھی تو اس کا سہرا بھارت کے سر کیوں نہیں باندھا جا رہا؟ اور اگر نہیں تو سچ کیوں چھپایا جا رہا ہے؟
یہ وقت ہے کہ حکومت حقائق کو سامنے لائے اور عوام کے سامنے صاف صاف بتائے کہ ’آپریشن سیندور‘ کی حقیقت کیا ہے۔ ورنہ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ہمیشہ زندہ رہے گا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی واقعی ڈونالڈ ٹرمپ کے بیانات کے سامنے لاجواب ہو گئے ہیں؟