کچھ دن دہلی میں گزارنے کے بعدراہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا تازہ دم ہو کر اب اتر پردیش کی طرف کوچ کر گئی جہاں وہ لونی کے راستے ہوتی ہوئی ہریانہ میں داخل ہوگئی ہے ۔ اس دوران راہل گاندھی میں جو جوش و خروش دیکھا گیا اور جو اعتماد ان کے چہرے سے جھلکا اس نے مخالف خیمہ کی فکر اور بے چینی بڑھا دی ہے ۔بے چینی اس بات سے نہیں کہ راہل گاندھی کیا کہہ رہے ہیں بلکہ بے چینی اس مجمع کو دیکھ ر بڑھ رہی ہے جس میںلوگوں کا سمندر تھا اور وہ دور دراز سے صرف راہل کی یاترا میں شریک ہونے پہنچے تھے۔در اصل دہلی میں داخل ہونے کے بعد راہل کی دھماکہ دار اسپیچ نے مخالفین کی بے چینی میں مزید اضافہ کردیا تھا۔لیکن اس کے بعد دہلی میں ان کے خطاب سے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔کیونکہ راہل گاندھی نے لال قلعہ کی فصیل سے اپنی جو اسپیچ دی وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو کچوکے ضرورلگا رہی تھی ۔نہ صرف انہوںنے فرقہ پرستوں کی جماعت کے لیڈروں کے چہرے پر پڑا غلاف اتارا بلکہ میڈیا کے ’’رول‘‘ کی بھی جم کر تعریف کی کہ وہ کیسے کام کررہا ہے اور اس کا کردار کیسا ہونا چاہئے !یا وہ کس طرح سے ایک جماعت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے! ۔بی جے پی کی حکومت کو جھنجوڑدینے والی راہل گاندھی کی اسپیچ یہیں ختم نہیں ہوئی وہ آگے بھی اسی تازگی اور جوش کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور لوگوں کی ہمدردی اور انکا ساتھ بٹور رہے ہیں ۔موضوع گفتگو بنی اپنی سفید شرٹ کے ساتھ کانگریس لیڈر جس طرح پہلے دن نظر آرہے تھے وہ آج بھی اسی تازگی کے ساتھ نظر آئے اور وہ اسی جوش کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔وہ لوگوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں اور لوگ ان کو ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب ہوئے جارہے ہیں۔ ہریانہ کے پانی پت میں پہنچ کر راہل گاندھی اسی جوش و ہمت کے ساتھ مودی حکومت پر برستے نظر آئے جو وہ دہلی میں کہہ گئے ۔اب بھی ان کے حملے جاری ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حامی تنظیمیں،ادارے اور کارپوریٹ گھرانے بغلیں جھانکنے کو مجبور ہیں ۔راہل گاندھی کہہ رہے ہیں مودی نے دو بھارت بنا دئے ہیں ایک غریب اور چھوٹے دکاندار کا بھارت اور دوسرا امیر اور کارپوریٹ کا بھارت! ۔حالانکہ وہ یہ بات پچھلے سالوں میں کئی بار دہرا چکے ہیں ،لیکن موجودہ حالات میں ان کا بیان لوگوں پر زیادہ اثر ڈال رہا ہے ۔ایسے میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ راہل گاندھی کی یاترا اپنے مقصد میں کتنی کامیاب ہوگی اور اس کے نتائج کیا بر آمد ہونگے۔ کیونکہ ایک جانب انہوںنے پانی پت میں انہوںنے ریلی کی حمایت میں آئے لوگوں سے ملاقات کر کے ان کا دل جیتا تو وہیں اس وعدے کے ساتھ کہ اگر ان کی پارٹی کی حکومت آئی تو انصاف کی اسکیم کو نافذ کرینگے اور ہر غریب کسان کو 72ہزار روپے دینے کا منصوبہ لائیںگے۔
بہر حال ،دہلی سے سیلم پور کے راستے لونی اور کیرانہ کے راستے ایک بار پھر ہریانہ تک کے سفر میں راہل گاندھی کی جو مقبولیت دیکھی گئی اس سے دوسری پارٹیاں سہمی ہوئی ہیں ۔ان کے جو وعدے ہیں وہ بی جے پی کو اپنی اسکیموں پر نظر ثانی کرنے کے لئے اب مجبور کرنے لگے ہیں۔لونی کے راستے ہریانہ تک کے سفر کے دوران اکثر لوگوں میں مودی حکومت سے جس طرح سے بیزاری کا اظہار دیکھا گیا وہ یہ ضرور بتا رہا ہے کہ راہل گاندھی کی یاترا نہ اپنے کامیابی کے پائیدان پر قدم رکھ چکی ہے ۔اس لئے راہل کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ لوگ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں سے دلبرداشتہ ہیں وہ کسی بھی بہانے راہل کی یاترامیں شامل ہو کر اپنا درد بیان کرنے نکل پڑے ہیں ۔اتر پردیش میں جس طرح سے ایک شخص کا یہ کہنا کہ ’’پہلے جب مودی جی آئے تھے، ان سے بہت امیدیں تھیں، انہوں نے دو کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کچھ نہیں کیا، اس لیے اس بار راہل سے امیدیں ہیں ‘‘ وہیں ایک خاتون کا یہ کہنا کہ ، ’’ہم پڑھائی کے بعد بیکار بیٹھے ہیں، ہم جیسے بے روزگاروں کی سننے والا کوئی نہیں‘‘ضرور یہ واضح کررہا ہے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں اور یہ کہ اب مقبولیت نے ایک بار پھر راہل کا دامن تھام لیا ہے جس سے بی جے پی حیران و ششدر ہے۔ لیکن اس سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ،سال 2024کے عام انتخابات کے بعد ہی کوئی نتیجہ سامنے آئیگا۔دیکھنا ہوگا کہ بی جے پی راہل گاندھی کے’ طلسم ‘کو ہرانے کیلئے کون سا نیا دائو چلتی ہے۔