نیویارک(ہ س)۔اقوامِ متحدہ کی ایک آزاد تفتیش کار اور غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کی واضح ناقد نے جمعرات کو کہا کہ انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر پابندیاں عائد کر دیں لیکن وہ جنگ کے بارے میں اپنے مؤقف پر مضبوطی سے قائم ہیں۔مغربی کنارے اور غزہ کے لیے اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک انٹرویو میں کہا، طاقتور انہیں اس لیے خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ بے بس لوگوں کا دفاع کر رہی ہیں جن کے پاس خاموشی سے کھڑے ہونے اور یہ امید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ زندہ رہیں گے اور اپنے بچوں کو ذبح ہوتے نہیں دیکھیں گے۔انسانی حقوق کی اطالوی وکیل نے کہا، "یہ طاقت کی علامت نہیں؛ یہ احساسِ جرم کی علامت ہے۔البانیز کو عہدے سے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے جنیوا میں قائم اعلیٰ ادارے انسانی حقوق کونسل پر امریکی دباؤ کی مہم ناکام ہو گئی تھی جس کے بعد محکمہ خارجہ نے ان پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔انہیں فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا کام سونپا گیا ہے اور انہوں نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے بارے میں آواز اٹھائی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ دونوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔امریکہ نے بدھ کو ان پابندیوں کا اعلان اس وقت کیا جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو غزہ جنگ بندی معاہدہ طے کرنے کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر حکام سے ملاقات کے لیے واشنگٹن کے دورے پر تھے۔انٹرویو میں البانیز نے امریکی حکام پر نیتن یاہو کا "عزت سے” استقبال کرنے اور آئی سی سی کو مطلوب ایک شخص کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے” کا الزام لگایا۔ اس عدالت کا نہ تو امریکہ اور نہ ہی اسرائیل رکن ہے اور نہ ہی اسے تسلیم کرتے ہیں۔” ٹرمپ نے فروری میں عدالت پر پابندیاں عائد کی تھیں۔البانیز نے زور دیا کہ جیت کا واحد راستہ خوف سے نجات حاصل کرنا اور فلسطینیوں اور ان کی آزاد ریاست کے حق کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ "ہمیں بازی پلٹنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنے کی خاطر ہمیں متحد ہونا چاہیے۔ وہ ہم سب کو خاموش نہیں کر سکتے، ہم سب کو نہیں مار سکتے، ہم سب کو برطرف نہیں کر سکتے۔انہوں نے سراجیوو ایئرپورٹ پر کہا، "ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف نارمل نہیں ہے۔ انہوں نے بلاخوف یہ بھی دہرایا، "جب تک فلسطین آزاد نہ ہو جائے، کوئی بھی آزاد نہیں ہے۔” البانیز جمعہ کو سریبرینیکا میں 1995 کے قتلِ عام کی 30 ویں برسی کی یادگاری تقریب کے لیے جا رہی تھیں جہاں 8000 سے زیادہ بوسنیائی مسلم مرد اور لڑکے اقوامِ متحدہ کے محفوظ علاقے میں اس وقت ہلاک ہو گئے جب بوسنیائی سربوں نے اسے زیر کر لیا تھا۔اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس واچ اور سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس نے امریکی اقدام کی مخالفت کی۔ اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے کہا، "خصوصی نمائندوں پر پابندیاں عائد کرنا ایک خطرناک نظیر اور ناقابلِ قبول ہے۔جیسا کہ البانیز انسانی حقوق کونسل کو رپورٹ کرتی ہیں اور سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کو نہیں تو "امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا کوئی بھی رکن آزاد نمائندوں کی رپورٹوں سے اختلاف کرنے کا حقدار ہے لیکن ہم انہیں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈھانچے سے رجوع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔” ٹرمپ نے فروری میں امریکہ کے انسانی حقوق کونسل چھوڑ دینے کا اعلان کیا تھا۔