(سید مجاہد حسین)
راجستھان کی گہلوت حکومت کے خلاف لیڈر سچن پائلٹ کی تنگ نظری اورنافرمانیاں کم ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہیں،دونوں کے درمیان شدید چپقلش اور تکرار کے قصے اب زیادہ سنے جارہے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے دودوہا تھ کرنے تیار ہیں ۔ایک جانب سچن پائلیٹ اپنی عادت سے باز نہیں آ رہے جبکہ وزیر اعلیٰ گہلوت ان کے خلاف تیز و تندجملہ کشی سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے !۔اس طرح دونوں لیڈروں کے درمیان زبانی جنگ اب شدید موڑ لیتی جارہی ہے ۔سوال ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور پائلٹ بغاوت پر کیوں آما دہ ہیں!،کیا اس کے پیچھے گہلوت کے اس الزام کو درست مان لینا چاہئے کہ بی جے پی نے کانگریس کی گہلوت حکومت کو کمزور کرنے کیلئے کچھ لوگوں کو پیسے دے کر استعمال کرنا شروع کردیا ہے ؟اور کانگریس میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے!۔گہلوت کا الزام ہے کہ ان حکومت میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے پائیلٹ خیمہ کے ممبران اسمبلی نے بی جے پی سے دس کروڑ روپے لئے تھے !۔ایک دن قبل ایک سوال کے جواب میں گہلوت نے پائلیٹ کے بارے میں ان کا نام لئے بغیر یہاں تک کہا کہ’’ سچن پائلٹ کو وزیر اعلی کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ جس شخص نے بغاوت کی ہو، جس کو 10 ایم ایل اے کی بھی حمایت حاصل نہ ہو اور جسے غدار قرار دیا گیا ہو، اسے لوگ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟‘‘۔گہلوت نے کہا کہ’ سچن پائلٹ کو 2020 میں اپنی بغاوت کے لیے معافی مانگنی چاہیے تھی لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا، اس لیے راجستھان کانگریس کے ایم ایل اے انھیں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے قبول نہیں کر سکتے‘‘۔گہلوت کا صاف کہناتھا کہ’’ اس بات کے ان کے پاس پختہ ثبوت ہیں کہ ان کے خلاف سازش رچنے کیلئے بی جے پی دفتر سے پیسے اٹھائے گئے ہیں ‘‘!۔اس میں شبہ نہیں کہ گہلوت اور پائلٹ کے درمیان زبانی جنگ پرانی ہے ،لیکن جس طرح سے گہلوت نے پائلٹ کیخلاف تازہ انکشافات کئے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے یہ لڑائی کس موڑ پر ہے ، ان کے الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اس کی حقانیت کو کیوں نہیں ٹٹولا جارہا ہے، نیز مخالفین راجستھان حکومت کے خلاف کس طرح سے اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہیں !۔گہلوت کے الزامات سے یہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کہ جارہی ہے کہ راجستھان کانگریس کو پائلٹ کے بیانوں سے کتنا نقصان پہنچ رہا ہے ،اور پارٹی قیادت کو کیا قدم اٹھانا چاہئے!۔بظاہر ریاست میں گہلوت حکومت کے خلاف پائلٹ کے چند مٹھی ممبروں کی باغیانہ سیاست فی الوقت زیادہ نقصان نہ پہنچا رہی ہو لیکن مستقبل میں اس ڈھیل کے جو نتائج مرتب ہونگے شاید اس سے قیادت انجان ہے ، جبکہ یہ قابل غور پہلو ہے ۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کانگریس صدر کھڑگے اس مسئلے پر کوئی سنجیدگی کیوں نہیں دکھارہے یا پائلٹ خیمہ کو ٹھندا کرنے کیلئے وہ ایکشن میں کب آئینگے ۔
در اصل راجستھان حکومت میں جس طرح سے اندرون جماعت لڑائی جاری ہے وہ نہ صرف اپنوں کو ہی نقصان پہنچائے گی بلکہ مخالف کو بڑا فائدہ اٹھانے کا موقع دے جائیگی۔سچائی ہے کہ پارٹی پائلٹ کی ماضی کی حرکتوں سے آشنا تھی ، اسکے باوجود انکو پارٹی میں واپس آنے کا موقع دیا گیا،لیکن پائلٹ کانگریس کے اس احسان جمیلہ کی ناقدری کرنے پر تلے ہوئے ہیں! ۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر گہلوت ہٹ بھی جاتے ہیں تو کیا پائلٹ اسمبلی میں اکثریت ثابت کر پائینگے ،کیا وہ اپنے دس بارہ ایم ایل ایز کی طاقت کے بل بوتے پر حکومت بنا پائینگے ،اس سچائی کو وہ خود بھی جانتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ پائیلٹ اسمبلی میں اپنی سیاسی طاقت منوانے کی حالت میں نہیں ہیں ،ایسے میں انکو گہلوت کے خیمہ سے بلا وجہ سینہ زوری کرنا چھوڑ دینا چاہئے ۔اب اگر پائلٹ اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے بھی گہلوت حکومت سے تکرار سے باز نہیں آرہے ہیں تو اس سے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی طاقت ان کی سیاسی پشت پناہی ضرور کررہی ہے، یہ بات مرکزی کانگریس لیڈر وںکو سمجھنی چاہئے۔دوسری جانب راجستھان کانگریس کی باہمی چپقلش کی کہانیاں جس طرح میڈیا میں چھائی ہوئی ہیں ،وہ کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کے اثرات کو کم نقصان پہنچانے والی نہیں ہیں ۔کانگریس لیڈر راہل گاندھی پا پیادہ یاترا کر کے لوگوں میں پارٹی کا اعتماد زندہ کرنے کیلئے طویل سفر پر نکلے ہوئے ہیں ،راجستھان کانگریس کی باہمی لڑائی ان کی اس کوشش کو چھلنی کر سکتی ہے۔بلا شبہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا ،ان کی جانب سے پارٹی کیلئے سنجیدہ جدو جہد اور قربانی کے طور پر دیکھی جانی چاہئے۔ادھر دوسری جانب راجستھان کانگریس کے لیڈروں کو خود کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط کرنے کی بات سوچناچاہئے اور بچکانہ عادتیں چھوڑکر کام کر کے دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے،پائلٹ کیلئے کام کرنے کا بڑا موقع ہے وہ لڑائی پر توجہ دینے کے بجائے کام کر کے لوگوں کے دلوں کو جیتنے کا کام کریںاور پارٹی کو ایک کنبہ کی نگاہ سے دیکھیں ۔












