مکرمی!رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف درود وسلام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ، سخاوت کے نام پر گلیاں اور بازار سج جاتے ہیں، ہر سو متقی اور پرہیز گاری دیکھنے کو ملتی ہے، مسجدیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، ہر بندہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر غربااور مساکین کی خدمت کرکے دلی سکون حاصل کرتا ہے۔ افطاری اور سحری کا خصوصی اہتمام کرتا ہے کیونکہ ماہِ رمضان میں نیکیوں کی لوٹ ہوتی ہے، اس لئے ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ نیکیوں اور رحمتوں سے جھولیاں بھرلے۔ رمضان کے مہینہ میں فسق وفجور میں کمی اور اعمال صالحہ میں کثرت ہوتی ہے، تلاوتِ قرآن ، ذکر واذکاراورشب وروز مجالسِ تبلیغ ہوتی ہے۔ اہلِ ثروت و دولت مند حضرات رضائے الہیٰ کے فرض زکوۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، لوگ قیام الیل یعنی نمازِ تراویح میں شرکت کرتے ہیں، بارگاہِ الہیٰ میں سر بسجود ہوکر دعا ومناجات کرتے ہیں، توبہ واستغفار کرتے ہیںاور اپنی بدکاریوں اور سیاہ کاریوں کو معاف کراکے جنت کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ لوگ عموماً ممنوع اور حرام کاموں کے ارتکاب کو نقصاندہ جانتے ہیںاور ان کے برے اثرات کو مانتے ہیں، اسی طرح بہت سے افراد معاشرہ اسلام کے عائد کردہ فرائض میں کمی کوتاہی کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن وہ حالات میں تبدیلی لانے پر قادر نہیں، وہ اپنی عادتوں کوترک کرکے مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں، مگر وہ انہیںترک نہیں کرسکتے، لیکن جیسے ہی یہ ماہِ مبارک شروع ہوتا ہے تبدیلی کا سفر آسان ہوجاتا ہے، اس ماہ رحمانی کی برکت کی وجہ سے انسان اپنی قوتِ ارادی میں بے پناہ شوق محسوس کرتا ہے، اس ماہِ مبارک میںاطاعت وفرمانبرداری سے رشتہ مضبوط تر اور گناہوں سے تعلق کمزور ہوجاتا ہے۔ قارئین محترم! ہر سال رمضان آتا ہے ، کتنے وعدے کئے جاتے ہیں، استغفار ، تلاوت ، ذکر ، تسبیحات ، تراویح، سحر وافطارکی دعائیں ، انفاق فی سبیل اللہ ، ہر سال رمضان میں یہی منظر ہوتا ہے، لگتا ہے سب کچھ بدل گیا ہے، گھنٹوں مساجد میں فضائیں تلاوت سے معمور ۔ آہ! لیکن رمضان کا آخری روزہ گذرتے ہی یہ سب پھر بدل جاتا ہے۔ امسال رمضان مہمان بن کر پھر آرہاہے، اگر رمضان نے ہم سے سوال کرلیا کہ پچھلے برس تمہیں جیسا چھوڑ کر گیا تھا بتائوں اب تک کیا بدلا ہے تمہارے اندر اور باہر؟ تمہاری دعائیں ، تمہارے وعدے، تمہاری عید ۔ آہ!نفس تو تمہارا کچھ بھی چھوڑنے پر آمادہ نہ ہوا، کتنی لاج رکھ لی تم نے میری، واقعی اگر رمضان نے ہم سے حساب مانگ لیا تو ؟ ہے کیا رمضان کو دکھانے کیلئے تمہارے پاس؟ ۔ وہ قرآن جس کا ایک ایک لفظ ہمیں راہِ ہدایت دیتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ماہِ رمضان میں ہی سخاوت کو اولین سمجھتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم صرف رمضان میں ہی سوالی کے آنے پر دروازے کھول دیتے ہیںاور باقی دنوں میں دھتکار دیتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم رمضان المبارک میں ہی صدقہ وخیرات کو ترجیح دیتے ہیں اور عام دنوں میں مٹھی بندکرلینے کو ہی ترجیح دیتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ہم موسیقی کے پروگرام ایک ماہ کیلئے بند کردیتے ہیں، اور عورتوں کے سروں پر دوپٹے آجاتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ یہ سارا سال نہیں کرتے؟کیا وجہ ہے کہ صرف رمضان میں ہی اسلامی پروگراموں سے دل گرمائے جاتے ہیں اور عام دنوں میں ننگ دھرنگ ڈراموں اور فلموں کی بھرمار ہوتی ہے، ہونا تو یہ چاہئے کہ رمضان شریف میں جب مٹھی بند نہیں ہوتی تو باقی گیارہ مہینوں میں بھی بند نہ ہو، صدقہ وخیرات رمضان کے علاوہ بھی کیا جاناچاہئے، بیماریوں کی تیمارداری کرنی چاہئے، بھوکے کو کھانا کھلاکر اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی چاہئے۔ قارئین حضرات!رمضان المبارک ہماری زندگی میں آتا ہے مگر ہم اس کی وہ قدر ومنزلت نہیں کرتے جیسا کہ ہمیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو روزے تو رکھتا ہے لیکن فرض نمازوں سے غافل رہتا ہے جبکہ نماز چھوڑ کر روزہ رکھنے والے اللہ کے شدید غضب کے گھیرے میں ہوتے ہیں، اور ان کے یہ روزے ثواب کے بجائے عذاب کے باعث بن رہے ہوتے ہیں، پھر بہت سے ایسے روزے دار بھی ہوتے ہیں جو کہ فرض نمازیں تو نہیں پڑھتے لیکن تراویح کی نہایت اہتمام سے پابندی کرتے ہیں، اگر کسی مسجد میں ۸بجے شب کو عشاء کی جماعت ہے اور تراویح کی جماعت سوا آٹھ بجے تو دیکھا یہ گیا ہے کہ لوگ فرض نماز کا وقت یعنی آٹھ پار کردیتے ہیں مگر تراویح کی جماعت سوا آٹھ نکلنے نہیں دیتے۔ یہاں بھی اس قسم کے افراد ظاہر کررہے ہوتے ہیں کہ وہ شریعت کی پابندی نہیں بلکہ اپنی خواہشات کو اہم سمجھتے ہیں اور اس کے مطابق دین کو الٹنے پلٹنے کی جسارت کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک ننگی حقیقت ہے کہ رمضان کے مہینے میں اور اس کے روزوں کو ہم نے عبادت کے طور پر لینے کے بجائے اسے تہوار کا روپ دے دیا ہے۔ کیونکہ رمضان میں زیادہ زور افطار اور کھانے پر ہوتا ہے، رنگ برنگ کے آئٹم افطار اور کھانے کیلئے بنائے جاتے ہیں، خواتین کا آدھا دن اسی کی تیاری میں لگ جاتا ہے، اس گہماگہمی اور مصروفیت میں سارا زور منھ کے مزے اور پیٹ کی خواہش کی تکمیل کی طرف ہوتا ہے، روزے کے اصل مقصد سے طبیعت ہٹی ہوتی ہے، اتنا ہی نہیں افطار میں انہماکیت اتنی زیادہ ہوتی ہے اور وسیع دستر خوان کے حقوق ادا کرنے میں اتنی دیر کی جاتی ہے کہ نہ تو وقت پر مغرب کی آذان ہوپاتی ہے اور نہ ہی نماز۔ بہت سے روزے دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ افطار میں ان کو اتنا مشغول کررکھا ہوتا ہے کہ جب وہ افطار کرکے مسجد پہنچتے ہیں تو نماز ختم ہوچکی ہوتی ہے یاپھر وہ آخری رکعت اور آخری صفوں میں شامل ہوپاتے ہیں، اس میں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرزِ عمل سے کسی کو بھی روزے کی صحت پر فرق پڑتے دکھائی نہیں دیتا۔ بہرحال رمضان یعنی اللہ کا مہمان ہمارے پاس تشریف لارہا ہے، ہمیں چاہئے کہ رسول ﷺکے حکم کے مطابق تیاری کریں، رمضان کے روزوں کا اہتمام کریں، خود بھی کریں اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے اور پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی ترغیب دیں، خواتین کو بھی اس ماہِ مبارک کی اہمیت سے آگاہ کریں، زیادہ سے زیادہ اجتماعی عبادت پر توجہ دیں ، جھوٹ اور غیبت سے اجتناب کریں ، تب ہی رمضان کا حق ادا ہوسکے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بابرکت مہینے کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔