جنوبی ہند کی ریاست کیرالہ کے صحافی صدیق کپن اٹھائیس ماہ بعد جیل سے رہا ہوگئے ۔وہ اتر پردیش میں اس وقت گرفتار کر کے جیل بھج دئے گئے تھے جب وہ ایک دلت لڑکی کے مبینہ اجتماعی ریپ اور ہلاکت کے واقعے کی رپورٹنگ کے لئے ہاتھرس جارہے تھے ۔ غور طلب ہے کہ یوپی کے کئی اضلاع میں جنسی زیادتیوں اور ہاتھرس میںدلت خاتون کی ہلاکت کا معاملہ ان دنوں شہ سرخیوں میں تھا اور اتر پردیش کی یوگی حکومت پر ناکامیوں کے الزامات عائد کئے جارہے تھے ۔ قابل ذکر ہے کہ جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے صدیق کپن ایک پروفیشنل صحافی ہیں۔ اس سے پہلے پورے ملک میں وہ گراؤنڈ رپورٹنگ کے لئے اپنی موجودگی درج کراتے رہے ہیں۔پچھلے کئی ماہ سے مسلسل صدیق کی ضمانت کیلئے کوششیں جاری تھیںلیکن ان پر کئی کیس عائد کیے جانے سے ضمانت میں اڑچنیں آرہی تھیں۔صدیق کپن پر نہ صرف یو اے پی اے کے تحت کیس درج کیا گےا بلکہ ان پر منی لانڈرنگ ،اور پی ایف آئی تنظیم سے وابستگی کا الزام بھی لگاےا گےا ،حالانکہ پولس اس کو ثابت نہیں کر سکی ہے۔لکھنؤ جیل سے باہر آنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”میں میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میری بھرپور مدد کی۔ میرے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے اور مجھے 28 ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ جیل سے باہر آکر میں خوش ہوں“۔انہوں نے مزید کہا،”میں ان سیاہ قوانین کے خلاف لڑوں گا جن کے تحت مجھے جیل میں رکھا گیا۔ حتی کہ ضمانت ملنے کے باوجود مجھے جیل میں رکھا گیا۔ نہیں معلوم کہ مجھے 28 ماہ تک جیل میں رکھنے سے کس کو فائدہ ہوا۔ یہ دو برس میرے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے، لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں“۔اس میں شک نہیں ایک صحافی کے لئے فیلڈ میں کام کرنا بے حد جوکھم بھرا ہوتا ہے اس کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔حکومت کا کام ہے کہ وہ ایک صحافی کو پورا تحفظ فراہم کرے ،لیکن بد قسمتی کہئے کہ ایک بے باک اور ایماندار صحافی کو اپنی عزت اور جان مال کو محفوظ رکھنا آج کے دور میں بے حد چیلنج بھرا ہوگےا ہے ۔کئی واقعات اس امر کے گواہ ہیں کہ وہ حکومت کی نکتہ چینی کرنے پر صحافیوں کو آزمائش کے دور سے گزرے بلکہ انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دےا گےا۔بلا شبہ صدیق کپن اپنے خلاف مقدمات میں مضبوطی سے کھڑے رہے ،اور انہوںنے یوپی حکومت کے تمام الزامات کو آئینہ دکھاےا۔ صدیق کپن کی رہائی جمہورےت میں یقین رکھنے والوں کی نگاہ میں آئین کی جیت کے مترادف ہے ،حالانکہ ابھی ان پر مقدمات کا نمٹارہ نہیں ہوا ہے ،لیکن امید یہی ہے کہ وہ الزامات سے بری کردئے جائیں گے۔ رہائی پر ان کے تاثرات ان کے دلی جذبات کی عکاسی کررہے تھے۔جس کو خود غرض حکومتیں شاید سمجھنے سے قاصر ہونگی ۔اس میں ان کے وہ اٹھائیس ماہ کا بدترین دور بھی شامل ہے جو انہوںنے سلاخوں کے پیچھے ناحق گزارا ہے ۔کہنا غلط نہیں ہوگا کہ صدیق کپن اور محمد زبیر جیسے پیشہ ورانہ صحافت سے وابستہ لوگوں کو سچ لکھنا مشکل ہوگےا ہے ۔ میڈےا پر حملوں اورصحافےوں کی گرفتاری کے واقعات نے نہ صرف اظہار رائے کی آزادی پر سوالیہ نشان لگا ےاہے بلکہ حکومتوں کی منمانی والے رویہ کو اجاگر کرنے کاکام کیا ہے۔ اس لئے اکثرصحافیوں کی تنظیمیں اس پر آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ صحافےوں کے مفادات کےلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے ) کے مطابق سال 2022میں دنےا بھر میں تقریبا 363صحافےوں کو جیل کی سلاخوںکا سامنا کرنا پڑا ۔سی پی جے کے مطابق جہاں دنےا بھر میںمیڈےا کو ہراساں کرنے پر سخت تنقیدوں کا سامنا ہے وہیں بھارت کی حکومتوںکو بھی صحافےوںکے ساتھ ’سلوک‘ پر تنقید کا نشانہ بناےاجاتا رہا ۔حالیہ معاملے میں اتر پردیش حکومت پر الزام ہے کہ اس نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے کپن کو گرفتار کیا اور جیل بھیجا۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں صحافےوں کے ساتھ خراب سلوک اور ان کی گرفتاری پر کسی نے آواز نا اٹھائی ہو اور حکومت کی نکتہ چینی نا کی ہو ۔صحافےوں کی تنظیمیں حکومت کو اس کے فیصلوں پرہدف تنقید بناتی رہی ہیں ،لیکن اس کا کوئی خاطر کواہ اثر نظر نہیں آتا۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدیق کپّن کی گرفتاری بھارت میں صحافیوں کو درپیش مسائل کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ گزشتہ چھ برسوں کے دوران صحافیوں کے لیے بے خوفی اور ایمانداری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔پیرس سے کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ود آوٹ بارڈر کے مطابق بھارت میں صحافتی آزادی کی حالت مسلسل بگڑتی جارہی ہے۔ ادارے کی طرف سے 2020 میں دنیا بھر میں صحافت کی صورت حال پر شائع رپورٹ میں بھارت 142ویں مقام پر ہے۔ صحافتی آزادی کے لحاظ سے بھارت کی حالت اس کے پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے بھی بدتر ہے۔بہر کیف صدیق کا یہ کہنا کہ انہیں صحافی ہونے کی سزا بھگتنی پڑی ہے ، ایک جھنجوڑنے والا بےان ہے ۔ اب صدیق کپن 28مہینوں بعد آزاد تو ہوگئے ہیں ،لیکن اس بات کی کیا گا رنٹی ہے کہ ان کا قلم بھی آزاد ہوگےا ہے !۔












