ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم ادیب، ناقد، ماہر اقبالیات، اور اسکالر کی حیثیت سے صوبہ بہار اور ملک بھر کے ادبی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے تھے- ان کا ادبی نظریہ بالکل واضح تھا- وہ ادب برائے ادب کی جگہ ادب برائے زندگی کو مقدم رکھتے تھے – اسی نظریے کے ساتھ انھوں نے اپنے پچاس سالہ ادبی زندگی کے سفر کو مکمل کیا – وہ کلاس روم کے اندر اور باہر اپنے طالب علموں کے لیے ایک مثالی استاد کی حیثیت رکھتے تھے- مندرجہ بالا خیالات کا اظہار گزشتہ دن ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم کی یاد میں "کاروان ادب” حاجی پور کے زیر اہتمام منعقدہ دعائیہ مجلس میں شریک مہمانان نے کیا- یہ دعائیہ مجلس "کاروان ادب” حاجی پور کے جنرل سکریٹری انوار الحسن وسطوی کی تحریک پر "کاروان ادب” کے دفتر واقع حسن منزل، آشیانہ کالونی حاجی پور میں منعقد ہوئی – کاروان ادب کے جؤآئنٹ سکریٹری مولانا قمر عالم ندوی کے تلاوت قرآن پاک سے اس دعائیہ نشست کا آغاز ہوا- کاروان ادب کے جنرل سکریٹری انوار الحسن وسطوی نے اپنے افتتاحی کلمات میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم کے ساتھ اپنے 40 سالہ رفاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے اور ہم جیسوں کے محسن تھے- ان کے احسانات بہت ہیں- ویشالی ضلع میں اردو تحریک کو انہوں نے جتنا کچھ دیا اس کے اثرات قائم ہیں اور رہیں گے – ان کی حیثیت "میر کارواں” کی تھی- انہوں نے بہار کی اردو تحریک کو تقویت بخشنے میں اہم رول ادا کیا – جناب واعظ الحق نے اپنی طالب علمی کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میرے استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ بے حد مشفقانہ انداز میں پیش آتے تھے اور اکثر ملاقات کی غرض سے ہم لوگوں کے گھر پہنچ جایا کرتے تھے – ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک استاد شاگرد سے ملاقات کے لیے اس کے گھر پہنچ جائے- جناب نسیم اختر نے اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جناب ممتاز احمد خان مرحوم محبت کے آدمی تھے – ان کے نزدیک مذہب اور مسلک کی دیوار ختم ہو جاتی تھی – جناب قمر عالم ندوی نے کہا کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان جیسی شخصیت خال خال ہی وجود میں اتی ہے- ان سے میرا قلبی لگاؤ تھا- ان کے قریب بیٹھ کر یک گونہ خوشی محسوس ہوتی تھی – ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے فرزند لطیف احمد خان نے گلو گیر آواز میں والد گرامی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمی ہر پل ہمیں محسوس ہوتی ہے- وہ قدم قدم پر ہم سبھوں کی رہنمائی کرتے تھے- ڈاکٹر عارف حسن وسطوی نے اس موقع سے کہا کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان کا جب بھی ذکر آئے گا تو انہیں جاننے والا ہر ایک شخص غمگین ہو جائے گا – ان کے ملنے جلنے کا انداز اتنا نرالا ہوتا تھا کہ وہ پہلی ملاقات میں ہی اپنی شخصیت کی چھاپ ملنے والے پر چھوڑ دیا کرتے تھے- جناب فدا الہدی نے استاد گرامی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے شاگردوں کی بھی کامیابی پر اسی انداز میں خوش ہوتے جیسے اپنے بچوں کی کامیابی پر خوش ہو رہے ہوں- انہوں نے کبھی بھی شاگردوں کو” تم” کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ ہمیشہ "آپ "کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے- جناب عبدالرحیم برہولیاوی نے اس موقع سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ گرچہ ے افراد پر تحریریں لکھ کر انہوں نے بڑا کام انجام دیا ہے – یہ ضروری ہے کہ ہم ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی فکر کو لے کر اگے بڑھیں اور عملی اقدامات کریں- جناب ندیم احمد خان نے کہا کہ اگرچہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان ہمارے رشتہ دار تھے لیکن وہ عام رشتہ داروں سے ہٹ کر تھے – میں جب اردو تحریک سے قریب ہوا تب مجھے ان کی شخصیت کا اصل اندازہ ہوا- جناب ذاکر حسین نے کہا کہ اعلی تعلیم کے حصول میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے میری بڑی معاونت کی- جناب عظیم الدین انصاری نے اس موقع سے کہا کہ استاد محترم کی یاد ہمیں ہمیشہ تڑپاتی رہے گی- انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ مثالی ہے- اگر ان کی سرپرستی ہمیں حاصل نہیں ہوتی تو ویشالی ضلع اور حاجی پور میں اردو تحریک کی سرگرمیاں اس انداز میں نہیں پروان چڑھتیں- کاروان ادب حاجی پور کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے تحریری طور پر بھیجے گئے اپنے پیغام میں کہا کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خان جیسی نابغہ روز گار شخصیت برسوں میں نہیں بلکہ صدیوں میں پیدا ہوتی ہے – انہوں نے کم از کم دو نسلوں کی ذہنی آبیاری کی، لکھنے پڑھنے کا ذوق ان کے اندر پیدا کیا – اور اردو کے بساط پر ان کی ایسی تربیت کی کہ وہ کام کے بن گئے – دعا ئیہ مجلس کے صدر اور کاروان ادب حاجی پور کے نائب صدر جناب ظہیر الدین نوری نے پٹنہ کالج میں اپنی طالب علمی کے زمانے کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جب میں پٹنہ کالج میں انٹر کا طالب علم تھا اس وقت ڈاکٹر ممتاز احمد خان گریجویشن فائنل ایئر کے طالب علم تھے- ان کی شخصیت اس وقت بھی مقناطیسی تھی- وہ بہت ہی سنجیدہ گفتگو کیا کرتے تھے – غیر متنازعہ شخصیت رہنے کی وجہ سے وہ ہر طبقہ میں مقبول تھے– جس ویشالی کی مٹی میں وہ پیدا ہوئے اس کی جی لگا کر آبیاری کی، بلکہ کہنا چاہیے کہ اس کا حق ادا کر دیا- ان کی شخصیت میں جو صالحیت تھی وہ ان کی گفتگو میں اور ان کی تحریروں میں واصح طور پر موجود پائی گئی – دعائیہ مجلس کا اختتام مولانا قمر عالم ندوی کی دعا پر ہوا- اس دعائیہ نشست میں جناب شاہد احمد اور تنویر حسن بھی شریک تھے –