جن دنوں بھارت غلامی کے شکنجوں میں جکڑاہوا اور اس پر غیروں نے پنجہ گاڑ دیاتھا۔تقاضہ تھاکہ دیش کو غلامی سے چھٹکارا دلاکر آزاد کرایا جائے۔اسی جذبہ کے تحت ہر مذہب کے لوگوں نے قربانیاں پیش کیں۔
آزادی کی روح پھونک نے کیلئے دیش کے ہر حلقہ سے علماء کرام جو سیکڑوں مدرسے چلارہے تھے وہ آزادی کی تحریک کا مرکز تھے جن کی قربانیوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
لکھاہے کہ حضر ت شیخ الہند مولانا محمودالحسن کی ر ہنمائی میں چل رہادارالعلوم دیوبند تحریک آزادی کا سب سے بڑااور مضبوط قلعہ تھا۔اسی طرح ہر علاقہ کے علماؤں نے تحریک آزادی میں اجتماعی قوت کیساتھ شریک ہونے کیلئے ایک مذہبی محاذ قائم کیا جو”جمعیت علماء ہند“کے نام سے تاریخ آزادی کا ایک خاص عنوان ہے۔
چنانچہ! جمعیت علماء ہند نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور اس کی رہنمائی میں لاکھوں مسلمانوں نے جنگ آزادی میں شرکت کی۔
آزادی کا بگل بجانے کی وجہ سے انگریزوں نے 1861میں تین لاکھ سے زیادہ قرآن مجید جلائے اس کے بعد مولاناؤں کو شہید کرنے کاعمل شروع ہوا۔
انگریز تاریخ دان ایڈورڈ ٹامسن نے لکھاہے ”آزادی کی روح پھونکے والے اسی ہزار سے زیادہ مولاناؤں کو 1864 سے 1867تک پھانسی پر لٹکایا گیادہلی کے چاندنی چوک سے خیبر تک ایساکوئی پیڑ نہیں تھا جس پر کسی مولانا کی گردن نہ لٹکی ہوئی ہو۔
لاہور کی شاہی مسجد جس کے صحن میں انگریزوں نے پھانسی کاپھندابنایاتھااس پر ایک ایک دن میں 80-80علماؤں کو پھانسی دی جاتی تھی اور لاہور کے دریائے راوی میں 80-80علماؤں کو بوریوں میں بندکرکے پھینک دیاجاتااور ان پر گولیاں چلائی جاتیں۔
مولانا ابو الکلام آزادنے لکھاہے کہ ہندوستان کی آزادی کیلئے یہاں کے مولاناؤں نے جتنی سرفروشانہ جدوجہد کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی یہ صرف ہندوستان کے مدرسوں کے علماؤں کو حاصل ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ کر آزادی کی لڑائی کاآغاز کیا جسمیں شاہ عبد العزیزدہلوی،سید احمد شہید،مولانا حبیب اللہ لدھیانوی،مولاناعبدالباری فرنگی محلی،مولانافضل حق خیرابادی،مفتی کفایت اللہ،شیخ الہندمولانامحمودالحسن،مولانا عبید اللہ سندھی،مولانا حسرت موہانی،مولانا محمدعلی جوہر، مولاناشوکت علی جوہر، مولاناقاسم نانوتوی،مولانا حسین احمدمدنی،مولانا جعفر تھانیسری،مولاناعزیزگل،
دیش کے پہلے راشٹر پتی ڈاکٹر راجیندرپرساد نے دارالعلوم دیوبند میں حاضری کے موقع پر شہیدان وطن علماؤں کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاتھاکہ ”آزادی کی لڑائی میں مدرسوں کے جو سپاہی میدان میں اتر تے تھے وہ آزادی کی لڑائی کیلئے بڑی قوت ثابت ہوتے تھے،ہمیں اس تاریخی حقیقت کو ہمیشہ یادرکھناچاہئے“
آج دنیا میں جتنے بڑے بڑے صوفی علماء بزرگان دین اورروحانی پیشواہوئے وہ انہیں مدرسوں کی دین ہیں جنہوں نے ہندوستان کے گیسوئے برہم کو ہزاروں سالوں تک سنوارا۔
ملک کی حفاظت کی اور آزادی کیلئے لاکھوں گردنوں نے پھانسی کے پھندے کوگلے لگایا،قیدوبند کی تکلیف برداشت کیں اور ملک کی آزادی کیلئے مالٹا کے قیدخانوں جہاں سمندری ہوائیں چلتیں طوفان کے جھونکے خون کو خشک کردینے والی تکلیف کووطن کی محبت میں گوارہ کیا،کیونکہ وہ ہندوستان کو انگیریزوں کے چنگل سے نکالنے کاتہیہ کر چکے تھے۔
چنانچہ 250سال ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی میں مقید اور یہاں کی عوام ظلم زیادتی کا شکا رہی اور خدا خداکرکے 15اگست 1947میں استبدادی مظالم سے رہا ہوکر ملک آزاد ہوگیا،آزاد ملک میں لواینڈآرڈر (امن وامان) برقرار رکھنے کیلئے ایک مستحکم قانون کی ضرورت تھی او رآزادی کے بعد سب سے بڑامسئلہ یہ تھاکہ ہمارے ملک میں وہ کون ساقانون ہو جس کو ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی اور باقی سارے مذاہب کے لوگ مان کرہندوستا ن میں ایک باعزت شہری بن کر جی سکیں۔اسلئے ا س ملک کے ہر مذہب کے ذی شعور لوگوں نے ملکر قانون بنانے کیلئے ایک کمیٹی بنائی جس کاصدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر کو بنایاگیا۔
ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈ کرایک بھارتی قانون داں،سیاسی رہنما،فلسفی انسان دوست آزاد بھارت کے پہلے وزیر قانون کی حیثیت سے وہ بھارتی دستور کے اہم مصنف تھے۔وہ امریکہ،انگلینڈ اور جرمنی کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل تھے۔آئین اور قوانین بنانے میں دوسال گیارہ مہینے اور اٹھارہ دن لگے تھے۔
اس آئین کی ترتیب میں ہر قوم ذی شعور لوگوں کو شامل کیاگیاجسمیں حضرت مولاناابوالکلام آزاد،مولاناحسرت موہانی،مولاناحفظ الرحمان سیوہاروی تقریباً35مسلم شامل تھے۔ دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہر ایک شق پر کھلی بحث ہوئی پھر 26نومبر 1949کو اسے قبول کر لیا گیا۔ 24/جنور ی 1950کو تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کردیا۔26جنوری 1950کو یہ قانون صبح 10:18بجے لاگو کردیاگیااور 6منٹ کے بعد 10:24منٹ پر ڈاکٹر راجیندرپرساد کی حلف برداری ہوئی اور پہلے راشٹرپتی نے ایرون اسٹیڈیم میں دیش کاترنگاپہرایا اور 10:30منٹ پر 30توپوں کی راشٹر پتی کوسلامی دی گئی۔
سچ ہے کہ پوری دنیامیں ہمارایہ ملک بڑاجمہوری ملک اور ہماراآئین بھی بڑاآئین ہے،جمہوری ملک کامطلب ہوتاہے ملک میں حکومت عوام کی ہوتی ہے اور حکومت کرنے والے عوام کی مرضی کے مطابق حکومت کرتے ہیں،اسی لئے اس ملک میں رہنے والے ہر آدمی کو یہاں آزادانہ زندگی گذارنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دیتاہے،ہماراآئین کہتاہے کہ یہاں ہندومسلم،سکھ اور عیسائی سب برابر کے باعزت شہری ہیں
اسلئے ہمیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کوسامنے رکھ کر اپنے ملک کی عظمت اور حفاظت کاسبق دہرانا ہے۔یہی ہمارے مذہب کاسبق اور اس کی رہنمائی ہے اور یہی مدرسوں کی تعلیم کاحاصل اور نچوڑ بھی۔
جسے فضول سمجھ کر بجھادیاتم نے!
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی!!