(سید مجاہد حسین)
راجستھان میں کانگریس کی اندرونی چپقلش اب جگ ظاہر ہونے لگی ہیں ،راجستھا ن میں پارٹی جس طرح دو دھڑوں میں بنٹی دکھائی دے رہی ہے یہ بات خود پارٹی کےلئے کافی تشویشناک ہے۔
حالیہ دنوں سچن پائلٹ اور وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے درمیان جس طرح سے تکرار ابھر کر سامنے آئی ہے وہ کانگریس کے لئے تشویش پیدا کررہی ہے تو وہیں اپوزیشن بی جے پی کےلئے مذاق کا ایک موضوع ہاتھ لگ گےا ہے ۔لیکن شاےد ریاستی اکائی اس سے بے بہرہ ہے ۔کہا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ گہلوت اپنی کرسی کو زیادہ ترجیح دےتے اور وہ درست فیصلے لینے سے قاصر ہیںاور وہ شاےد یہ بات نہیں سمجھ پارہے کہ یہ اختلاف پارٹی کو گہری چوٹ پہنچا سکتا ہے!۔قابل ذکر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اسے کانگریس کا اندرونی معاملہ قرار دےا ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ وہ اس پر گہری نظر جمائے ہوئے ہے !کیونکہ اندرون اختلافات ہی مخالفین کو اندر گھسنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں !۔در اصل پچھلے کچھ دنوں سے دیکھا جارہا ہے کہ سچن پائلٹ گہلوت سے سخت بیر رکھ رہے ہیں اور ان کے فیصلوں اور کاموں کی بھی جم کر مخالفت کررہے ہیں ۔حال ہی میں سچن پائلٹ نے اعلیٰ قےادت سے رےاست میں تبدیلی کا مطالبہ دوہراےا ہے جو حکومت سے بغاوت کے اشارے کو واضح کرتا ہے ۔انکے اس چبھتے بےان پر گہلوت کی طرف سے کافی تلخی دکھائی دی اورانہیں سخت انداز میں جواب دےا گےا ،در اصل پائلٹ نے بدھ کو حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھاکہ راجستھان میں عدم فیصلہ کے ماحول کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ،پارٹی اس معاملے پر جلد قدم اٹھائے گی۔جس پر گہلوت کو غصہ آگےا تھا اور انہوںنے انہیں نظم وضبط میں رہنے کی نصیحت کردی تھی۔سچن کو ان کی یہ بات ناگوار محسوس ہورہی ہے تبھی سے انکی ناراضگی حکومت سے کافی بڑھ گئی ہے۔سچن پائلٹ کی رنجش گہلوت حکومت سے نئی نہیں بلکہ دیرینہ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس سے کچھ سال قبل بھی ایک بار سچن پائلٹ نے گہلوت حکومت سے بغاوتی تیور اپناتے ہوئے بی جے پی سے ےارانہ بڑھانے کی کوشش کی تھی لیکن انہیں جلد ہی عقل آگئی تھی اور وہ گھر لوٹ آئے تھے!۔کچھ دن پہلے بھی انہوںنے اشوک گہلوت کی ایک بڑی غلطی کا سہارا لیتے ہوئے پارٹی سے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی ۔حالانکہ تب گہلوت نے اعلیٰ کمان سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگ لی تھی ،اور کانگریس صدر انتخابات کےلئے امیدواری سے معذوری ظاہرکردی تھی ۔لیکن ایسالگتا ہے کہ سچن پائلٹ کانگریس قےادت سے گہلوت حکومت کی خامیوں کو اجاگر کردےنے کے فراق میں بیٹھے ہیں اور اس پل کا انتظار کررہے ہیں جو ان کےلئے ترےاق ثابت ہو سکے۔یہ بات وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ابھی وہ سےاسی اعتبار سے کافی کمزور ہیںجب کہ وزیر اعلیٰ گہلوت کے پاس سیٹوں کا اچھا خاصہ نمبر ہے جس سے مخالفین ان کو کوئی چوٹ پہنچانے کی حالت میں فی الحال نہیں دکھائی دےتے ،اسی بات سے وزیر اعلیٰ کافی مطمئن بھی ہیں۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ اس کے باوجودسچن پائلٹ اپنی حیثےت سمجھتے ہوئے انہیں آنکھیں کیوں دکھاتے رہتے ہیں اور ان کے فیصلے سچن پائلٹ کو کیوں کھٹکتے ہیں؟۔ ناقدین اس کے پیچھے ایک مخالف ٹولہ کی ایک ساز ش کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو رےاست سے کانگریس کا قلع قمع کردینا چاہتی ہے !۔اس لئے آواز اٹھ رہی ہے کہ اس میں جلد افہام و تفہیم سے کام لے لیا جائے۔
بلا شبہ کانگریس کو اگرچہ کھڑگے کی صورت میں ایک قابل اور باصلاحیت قومی صدر ملنے سے جہاں اطمینان اورخوشی میسر آئی تھی ، لیکن راجستھان کی اندرون چپقلش اور تکرار و اختلاف نے ا س پر پانی پھیردےا ہے!۔اس معاملے پر کانگریس کی اعلیٰ قےادت کو سوج بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ،کھڑگے دونوں کو دہلی طلب کرسکتے ہیں اور ان سے وجہ جان سکتے ہیں ۔ روزر وز کی لڑائی رےاستی اکائی کو نقصان پہنچا سکتی ہے،اور اپوزیشن کو اقتدار میں آنے کا موقع دے سکتی ہے ۔اگر وقت رہتے اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو موقع ہاتھ سے نکل جائےگا اور دونوں کے درمیان بڑھتی کھائی کو پاٹنا مشکل ہوجائےگا۔ اس میں شک نہیں کہ پارٹی ابھی اکھڑی ہوئی سانسیں لے رہی ہے ،جن رےاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے وہاں اپوزیشن بی جے پی دانت گڑائے بیٹھی ہے اور موقع کے فراق میں ہے۔ایسے میں کھڑگے کے سامنے کافی چیلنجز ہیں ،راجستھان کی لڑائی ان کےلئے ایک امتحان ثابت ہورہی ہے ،وہیں سچن پائلٹ کو بھی اپنی انااور کرسی کی لالچ کو چھوڑ کر اچھے تال میل کے ساتھ اور بہتر رشتہ قائم کرنے چاہئیں تاکہ وہ اپنی طاقت کومنوا سکیں۔