سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس نے شکایت درج کرائی ، ڈبیٹ اس بنیاد پر تیار کی گئی تھی کہ اس سے ہندو مسلم دشمنی میں اضافہ ہو
مسلم دشمنی اور مذہبی نفرت پھیلانیوالے مبینہ چینلوں پر شرپسندانہ مواد ختم ہونے کانام نہیں لے رہا ہے۔ فی الحال دہلی کے مہرولی علاقہ میں ہوئے دردناک قتل کے تئیں مسلم کمیونٹی کو سوشل میڈیاپر نشانے پر لیا جارہاہے۔ کسی معاملہ میں مجرم کی شناخت اگر مسلم سے ہوجائے تو وہ سارے شرپسند عناصر سوشل میڈیا پر دوڑ پڑتے ہیں جنہوں نے مذہبی تعصب پھیلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ گودی میڈیا بھی اسی راہ پر چلتی ہے جس سے ہندو مسلم دشمنی زیادہ سے زیادہ پھیلائی جاسکے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طو رپر ابھی حال ہی میں ’ ٹائم ناؤ‘ پر ’ مدرسہ جہاد‘ کے نام سے ایک شو نشر ہوا تھاجس میں جم کر مدرسوں اور مسلمانوں کیخلاف زہر افشانی کی گئی ہے۔ اس دوران ایسے معاملات پر متعلقہ اداروں سے شکایت کرنے والی سماجی تنظیم ’ سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس‘ ( سی جے پی ) متحرک ہوگئی ہے۔
ٹائمز ناؤ کو دی گئی ایک شکایت میں’ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس‘ نے’ مدرسہ جہاد‘ پر بڑا خلاصہ ‘ اور’ مذہبی تعلیم کا 491 تنتر‘ نامی ایک ڈبیٹ شو کے مواد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ شو 11 نومبر کو ٹائمز ناؤ نوبھارت پر نشر ہوا تھا، جویوپی سرکار کی طرف سے ریاست کے کچھ اضلاع میں مدارس پر کرائے گئے سروے پر مبنی تھا۔ٹائم ناؤ کی رپورٹ کے مطابق سروے سے پتہ چلا ہے کہ بہرائچ شہر، جو نیپال کی سرحد کے قریب ہے، میں 792 مدارس ہیں، جن میں سے 491 بغیر لائسنس کے چل رہے ہیں۔ چینل نے اس خبر پر بحث کی اور باور کرانے کی کوشش کی کہ بہرائچ میںمدرسہ جہادنام کی کوئی چیز ہو رہی ہے۔ شو کا آغازکچھ یوں ہوتا ہے کہ پس منظر میں ایک بڑے ڈسپلے سے ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے ’بہرائچ میں مدرسہ جہاد‘۔ مندرجہ ذیل عبارت پورے ٹی وی شو کے دوران بار بار دکھائی جاتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ چینل کا مقصد مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانا تھا اور یہ باور کرانا تھا کہ مدرسہ میں جہاد سکھایاجاتا ہے۔
شو کے دوران جو متعصبانہ عناوین بنائے گئے ان میں کچھ اس طرح تھے۔یوپی میں مدرسہ جہاد پر بڑا انکشاف (00:05)،جہاں اویسی گئے وہیں غیر قانونی مدرسے اگ آئے؟ (00:53)،ایم فیکٹر آف بہرائچ (04:32)،ہند۔نیپال سرحد… کس نے گڑھ بنایا (00:30)،بہرائچ میں 34% مسلم آبادی (04:27)،حملہ آور محمود غزنوی کا بھتیجا تھامسعود (05:30)،بہرائچ میں سالار مسعود غازی کی درگاہ (28:50)۔ ڈبیٹ میں جن لوگوں کو بٹھایا گیا تھا انہیں بھی چینل نے بہت سوچ سمجھ کر لیا تھا۔ وہ کچھ ایسے سوال کررہے تھے جس سے ہندو مسلم دشمنی بڑھے ، جس سے چینل کا مقصد پورا ہورہا تھا۔
ڈبیٹ کی میزبان نینا یادو نے سوال کیا کہ ان مدارس کو کس طرح مالی امداد دی جارہی ہے، اسپیکر ایک مسلم اسکالر نے کہا کہ پورے ملک کے مسلمان خود ہی مدارس کو فنڈ دیتے ہیں، جس پر انہوں نے سوال کیا کہ آخر ایسا کیا ہوتا ہے مدرسوں میں کہ اتنا بڑا دل دکھایا جاتاہے؟ ۔ ایسا کیا ہے ان مدرسوں میں ان کیلئے اتنی بڑی سخاوت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔شکایت میں کہا گیا ہے کہ اقلیتی طبقے پر یہ مسلسل بدنامی اور حملہ اس نکتے کو آگے بڑھانا ہے کہ مسلمان اس ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مدرسہ جہاد جیسی اصطلاحات کا استعمال مسلم کمیونٹی کیلئے توہین توہین آمیز ہے، اس کے علاوہ دقیانوسی تصورات کو برقرار رکھنا ہے جو ایسے رویوں اور اعمال، نقصان اور فساد کا باعث بن سکتے ہیں۔بہرحال اب دیکھنے والی بات ہے یہ ہے کہ اس شکایت کے بعد ٹائم ناآ میں کوئی تبدیلی آئے گی یا نہیں۔