سید مجاہد حسین)
تقریباًتین ماہ جیل میں بند رہنے کے بعد شیو سینا (یوبی ٹی ) کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت کی بدھ کو ایم پی ایم ایل اے عدالت سے ضمانت منظور ہوگئی اوروہ جیل سے باہر آگئے ہیں۔ان کی ضمانت پر عدالت اور ای ڈی کے درمیان کیا سوال و جواب کا سلسلہ رہا ،اس سے قطع نظر یہاں قابل غور یہ ہے کہ یہ ضمانت اس وقت ہوئی جب گجرات اور ہماچل میں اسمبلی الیکشن قریب ہیں اور دہلی میں میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے اورتینو ں الیکشن کے نتائج دسمبر میں آجائیں گے۔بتایا جاتا ہے کہ کورٹ نے ضمانت منظوری کی سماعت کے دوران اپنے فیصلے میں انفورسمنٹ ڈائیرکٹوریٹ کے کام کے طور طریقہ پر کئی سوال کھڑے کئے اور پھٹکار لگائی ۔اس دوران جس طرح ایم پی ایم ایل اے کورٹ نے ای ڈی کی سوالات سے گھیرا بندی کی وہ دیکھنے لائق تھی جس سے خود ای ڈی کے افسران بھی ششدر رہ گئے ہونگے! ۔عدالت نے یہ کہہ کر کہ سنجے کے خلاف پولس اور ای ڈی کی کارروائی غیر قانونی تھی ،سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مرکزکی ایجنسیو ں کا الزام نا قابل قبول ہے
بلکہ یہ بھی کہ کسی کو ناجائز گرفتار کرکے اس پرلگائے گئے فرضی الزامات کو آسانی سے ثابت نہیں کیا جاسکتا خواہ وہ سرکاری ایجنسیاں ہی کیوں نہ ہوں!۔اس لئے عدالت نے ان کے خلاف کاروائی کو ’اویدھ ‘(ناجائز) بھی بتا یا ۔بہر کیف جس طرح عدالت نے سنجے راوت کی گرفتاری معاملے میں ای ڈی کو آئینہ دکھایا اور اس کی سرزنش کی اس کی ایک اہمیت ہے اور ہمارے سسٹم پر کئی اٹھتے سوالات کا ایک مختصر جواب بھی!۔اب تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ مرکز پر جانچ ایجنسیوں کے بے جا استعمال کے الزامات کیوں لگتے رہے اور اپوزیشن کے لیڈر اس سے خائف کیوںرہتے ہیں !۔کہا جاتا ہے کہ اب تک کچھ معاملے تو ایسے ہیں جن میں جانچ ایجنسیوںکو کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگ سکے اور وہ خالی ہاتھ لوٹ گئے!۔ قابل ذکر ہے کہ کچھ دن پہلے دہلی وقف بورڈ کے چیئر مین امانت اللہ خان کی گرفتاری کے بعد ان کی ضمانت اور دہلی کے ہی ڈپٹی سی ایم منیش سسودیا کے خلاف ای ڈی کی چھان بین ،شاہ رخ خان کے بیٹے آریان خان کے خلاف دھوم دھام سے ممبئی نارکوٹکس کی تحقیقات اوربعد میںاس میں ناکامی کے بعدسے سوال یہ اٹھنے لگے ہیں کہ ہماری تحقیقاتی ایجنسیوں کو ناکامی کیوں ہاتھ لگتی رہی ہے ،اور وہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت دینے میں کیوں مضبوط ثابت نہیں ہوپارہی ہیں ؟اس سوال کا جواب اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے ہمیں اکثر ملتا رہا ہے لیکن ہم اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کوئی اس کو تسلیم کرنے سے کیوں اپنی گردن بچاتا ہے کہ جو بات اپوزیشن جماعتیں کہتی آرہی ہیں!یہ بات دیگر ہے کہ مرکزی حکومت اس پر خاموش تماشبین بنی رہتا ہے!۔قابل غور ہے کہ پچھلے طویل عرصہ سے کانگریس اور عام آدمی پارٹی سمیت اپوزیشن کی کئی دیگر جماعتوں کا سنگین الزام ہے کہ مرکزاپنی بڑی جانچ ایجنسیوں کا استعمال سیاسی عداوت یا سیاسی انتقام کیلئے کررہا ہے ،شاید اس لئے ای ڈی ، سی بی آئی،سی آئی ڈی ،نارکوٹکس ،این آئی اے ،ایس آئی ٹی جیسے ادارہ اپوزیشن کے لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا کام کررہے ہیں جبکہ ان کے خلاف جرائم ثابت نہیں ہو پاتے ہیں!۔
اپوزیشن کے الزامات کے تناظر میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہے کہ ہماری جمہوری طرز پر منتخب حکومت کے عہد میں اس طرح کا سرکاری مشینری کا بے جا استعمال کیوں ہو رہا ہے اور اس کے پیچھے ایسے کیا مقاصد کارفرما ہیں جو ہمارے سسٹم کو بدنام کررہے ہیں؟۔اگر یہ سب اپنے عیب چھپانے اور کرسی حاصل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے تو واقعی یہ بہت بڑا عیب ہے بلکہ بڑا خطرناک کھیل ہے جس میں جیت سر اسرحکمراں پارٹی کی ہی ہونی ہے !۔یہ بات دیگر ہے کہ ثبوتوں پر وہ مات کھاجائے! ۔بہر کیف ،سنجے راوت جیسے اور بھی کئی ایسے لیڈر ہیں جو اپنی زندگی کا قیمتی وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بتا آئے ہیں ،وہ اپنی زبان بند کئے بیٹھے ہیں ۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس نے انتقام کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے اور نئی بنیاد ڈالی ہے! ۔پچھلے سات ،آٹھ سالوں میں اس روایت کے عروج کا جادو اب سر چڑح کر بول رہا ہے اور لوگ اس جادوئی طلسم سے خائف رہنے لگے ہیںکہ کب کس کا نمبر آجائے اور اس کو جیل کی اندھیری کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے !۔بہر حال، جو کچھ ہو رہا ہے اس پر رونا ہی آتا ہے،سنجے راوت نے جیل سے آنے کے بعد جس طرح اپنی آپ بیتی کا موازنہ سابقہ لیڈروں کو ملنے والی جیل کی سزائوں سے کیا ہے اور جس طرح 101دن کی کہانی بتائی ہے اس میں ان کی بے بسی ہے تو وہیں ایک پیغام یہ بھی چھپا ہے جس کو کوئی سمجھنا نہیں چاہتا ہے!۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سزا کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کریں گے اور انہیں بتائیں گے کہ وہ کس مرحلے سے گزر رہے ہیں!۔