سید مجاہد حسین
ملک کی دو ریاستوںمیں الیکشن کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی ہے،سیاسی جماعتوں کی دل کی دھڑکنیں اتنی تیز ہورہی ہیں۔اس درمیان سبھی کی نگاہیں گجرات اور ہماچل میں اس سیاسی میدان جنگ پر مرکوز ہیں جو نہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناک کا سوال بنی ہوئی ہے بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ گجرات کے انتخابات ہی طے کریں گے کہ 2024کے لوک سبھا الیکشن میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اورنتائج کس کو ’اوج ثریا‘ پر بھیجنے کا فیصلہ کریں گے ۔ایسے میں جہاں بی جے پی گجرات کے سیاسی میدان کو جیتنے کیلئے تمام دائو پیچ کا استعمال کرنے کی فراق میں ہے تو وہیں کانگریس اور عام آدمی پارٹی بھی بی جے پی کو مقابلے میں پچھاڑنے کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں ۔حالانکہ مانا جارہا ہے کہ گجرات میں مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہوگا لیکن کانگریس جس طرح سے خاموشی سے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لئے لوگوں سے رابطے میں ہے ،اس کا یہ دائو بی جے پی کے لئے مشکل بن سکتا ہے۔ لیکن حالیہ دنوںکچھ وجوہات کی بنا پر کانگریس اندرونی طور سے انتشار اور کمزوری کے دہانے پر کھڑی نظر آرہی ہے۔
گرچہ راہل گاندھی بھارت جوڑو یاترا پر پاپیادہ نکلے ہوئے ہیں لیکن جہاں ان کی یاترا کی ستائش ہورہی ہے تو وہیں دوسری طرف پارٹی کے ہی اندر سے اس پر کچھ تنقیدیں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔
عام خیال ہے کہ راہل گاندھی پچھلے ساٹھ دن سے بھارت جوڑو یاترا پر نکلے ہوئے ہیں ،وہ اب تک پانچ جنوبی ریاستوں کا دورہ کر چکے ہیں ،اورانکی یاترا مہاراشٹر پہنچ چکی ہے۔ان کی یاترا ابھی تلنگانہ کا سفر کرتے ہوئے آگے بڑھے گی ۔لیکن اس ساٹھ دن کی محنت کے بعد بھی کہیں سے یہ نہیں ظاہر ہورہا ہے کہ کانگریس کو کچھ فائدہ ہوا ہے ،یا راہل گاندھی جو کررہے ہیں وہ پارٹی کے رہنمائوں کی نظر میں قابل ستائش ہے ۔جس طرح سے تلنگانہ کی مونوگوڈے اسمبلی سیٹ پر کانگریس کی ضمنی الیکشن میںہار ہوئی ہے وہ پارٹی کے حوصلے کے لئے بڑا دھچکا مانی جارہی ہے۔کہا جارہا ہے کہ منگوڈے سیٹ کے ضمنی انتخاب میں پارٹی کی شکست گجرات میں کانگریس کے لیے ایک سبق ہے اس لئے راہل کو سنبھل جانا چاہئے اور سوجھ بوجھ سے کام لینا چاہئے ۔پارٹی کے اندر سے آواز اٹھ رہی ہے کہ راہل تلنگانہ کا سفر مکمل کرنے سے پہلے اسمبلی انتخابات پر توجہ دیں ،کیونکہ انتخابی ناکامی یاترا کی کامیابی کو متاثر کرے گی۔اس بارے میںپارٹی کے ایک سینئر لیڈر کا جو کہنا ہے وہ قابل غور ہے ۔ ایک لیڈر کے مطابق ’’ منگوڈے سیٹ پر شکست ہمیں آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے، پارٹی مسلسل کہتی رہی ہے کہ یاترا کارکنوں میں نیا جوش و خروش پیدا کر رہی ہے، لیکن انتخابی نتائج اس توقع کے خلاف ہیں۔ ایسے میں پارٹی کو یاترا کے ساتھ ساتھ ہماچل پردیش اور گجرات انتخابات پر بھی توجہ مرکوز کرناہوگی۔ انتخابی مہم مقامی رہنماؤں پر نہیں چھوڑی جا سکتی‘‘۔غور طلب ہے کہ کانگریس 2017 کے اسمبلی انتخابات میں 19 سیٹیں جیت کر تلنگانہ میں دوسری سب سے بڑی پارٹی تھی۔ بعد میں 14 ایم ایل ایز نے رخ بدل لیا اور پارٹی کے پاس فی الحال صرف پانچ ایم ایل اے رہ گئے ہیں۔ جبکہ اے آئی ایم آئی ایم کے اسمبلی میں سات ایم ایل اے ہیں۔ پارٹی کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں بی جے پی دوسرے نمبر پر رہی۔ جبکہ منگوڈے روایتی طور پر کانگریس کا گڑھ رہا ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ راہل پارٹی کے لئے جو جوئے شیر لانے کی کوشش کررہے ہیں اس میں وہ سخت آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔جبکہ کانگریس کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا تھا کہ یہ یاترا پارٹی میں نیا جوش و خروش پیدا کرے گی اور بی جے پی حکومت کو آئینہ دکھانے کا کام کرے گی ۔یاد رہے کہ کانگریس کی یاترا بی جے پی کو جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کے مبینہ نقصانا ت پر گھیرنے اور لوگوں کو اس کے بارے میں بیدار کرنے کے لئے نکالی گئی ہے ۔لیکن تلنگانہ میں ہوئی ایک سیٹ پر ہار سے کانگریس کو اندرونی طور پر پہلے ہی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔اس لئے پارٹی کے حکمت عملی سازوں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی کو فوری طور پر گجرات انتخابی مہم میں اترنا چاہیے اور دونوں ریاستوں میں انتخابات کی مہم جوائن کر لینی چاہئے۔کیونکہ، ’آپ‘ نے پنجاب میں کانگریس کو شکست دی ہے ، گجرات میں بھی پارٹی (کانگریس) کی لاپرواہی کی وجہ سے آپ گجرات میں دوسری پارٹی بن گئی ہے، اگر ایسا ہوا توپھر یہ سیاست کا بڑا حادثہ ہوگا اور اس کا نقصان کانگریس کو ہوگا!۔