دہلی کی ساکیت عدالت نے سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب تشدد کے معاملے میں جے این یو کے ایک طالب علم اور دس دیگر کو بری کر دیا ہے۔یہ فیصلہ شرجیل امام اور ان کے 11دیگر ساتھیوں کے مبینہ تشدد کے ایک معاملے میں سامنے آےا ہے ۔انہیں جامعہ یونیور سٹی کے باہر تشدد کے الزام میں جیل میں ڈال دےاگےا تھا،اس وقت دہلی اور دیگر رےاستوں میں حکومت کے متنازع قانون سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاجی مظاہرے شباب پر تھے ۔ آج شرجیل امام ا ور دیگر کو بری کرتے ہوئے عدالت نے نہ صرف پولس کے کام کے طور طریقوں پر سوال اٹھائے بلکہ سخت تبصرے کئے۔جو کافی جھنجوڑنے والے تھے ۔لیکن ا ن تبصروں کا پولس اور اس کے سسٹم پر کوئی اثر پڑے گا یہ بڑا سوال ہے ، کیونکہ اس پہلو پر بحث و مباحثے کئی بار ہو چکے ہیں۔پولس کے سسٹم پر انگلےاں تو اٹھی ہیں لیکن اس میں تبدیلی نہیں آسکی ۔یہ تشویش کی بات ہے کہ سنگین مقدمات میں بند کئی مسلم نو جوانوں کی گھر بار اور زندگےاں جیل کی نذر ہوگئیں ،وہ بغیر کسی ٹرائل کے کئی سالوں تک جیل میں بند رہے،بعد میں بے قصور پائے گئے اور عدالت سے باعزت بری ہوئے ۔صحافی صدیق کپن کا تازہ معاملہ سامنے ہے۔وہ ریپ معاملے کی گراؤنڈ رپورٹنگ کرنے جارہے تھے کہ انہیں پولس نے گرفتار کر لےا تھا۔وہ منی لانڈرنگ کے مبینہ الزام میں دو سال سے بند تھے ۔ان پر بعد میں پی ایف آئی سے وابستگی کا کیس بھی درج کراےا گےا ،لیکن عدالت نے انہیں دو معاملوں میں ضمانت دے دی اور وہ جیل سے 28ماہ بعد باہر آگئے۔دونوں معاملوں میں ایک بات یکساں ہے۔ وہ یہ کہ دونوں میں پولس کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکی اور جیل میں بغیر کسی ٹرائل کے بند ملزمان کی زندگی کے قیمتی ایام ضائع ہوگئے ۔ عدالت کو جب تک معلوم ہوا کہ ملزمان بے قصور ہیں تب تک ان نو جوانوں کی تعلیمی اور خانگی زندگی کا قیمتی حصہ تباہ ہو چکا تھا ۔لیکن عدالت کی سخت سرزنش اور اس کی فکر انگیزی کا بد عنوانی اور غیر ذمہ داری کے دلدل میں پھنسے پولس سسٹم پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔شرجیل کے معاملے میں بھی پولس کی دلیلیں اوندھے منہ گر گئیں اوروہ ان پر الزام ثابت نہیں کر سکی! ۔ عدالت نے اس معاملے میں کہا کہ اصل سازش کرنے والے بچ کر نکل گئے اور شرجیل امام کو بلی کا بکرا بنایا گےا ۔ یہ معاملہ 13 دسمبر 2019 کا ہے جب انہیں تشدد کے معاملے میںگرفتار کیاگےا تھا۔،تاہم شرجیل ابھی رہا نہیں ہونگے کیونکہ وہ ابھی ایک دوسرے کیس کا سامنا کررہے ہیں۔
عدالت نے جامعہ کے قریب تشدد کے معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ”اس معاملے میں داخل کی گئی مرکزی چارج شیٹ اور تین ضمنی چارج شیٹوں کو دیکھنے کے بعد، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جرم پولیس نے کیا تھا۔ اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہے لیکن ان لوگوں (شرجیل اور دیگر) کو قربانی کا بکرا بنا کر گرفتار کرنے میں کامیاب رہے۔آجفیصلہ سناتے ہوئے جج ارول ورما نے کہا کہ”پولیس تشدد کے اصل سازش کاروں کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کے بجائے انہوں نے امام، طنحہ اور صفورا زرگر کو قربانی کا بکرا بنایا۔ اس طرح کی پولیس کارروائی ایسے شہریوں کی آزادی کو مجروح کرتی ہے جو اپنے بنیادی حق کو استعمال کرتے ہوئے پرامن مظاہرے کے لیے جمع ہوتے ہیں“۔عدالت نے کہا کہ” شرجیل امام اور آصف اقبال کو اتنے طویل اور سخت مقدمے میں گھسیٹنا ملک اور فوجداری نظام انصاف کے لیے اچھا نہیں ہے۔ہمارا فرض ہے کہ اپنے ضمیر کے خلاف کسی بھی چیز کی مخالفت کریں“۔ عدالت کے سخت تبصرہ کا ہمارے ماحول پر اور پولس کے کام کے طور طریقوں پر کوئی فرق پڑے گا ،اس بحث سے قطع نظر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نہ صرف ا س بے تکے مقدمے سے پولس کی کرکری ہوئی بلکہ سسٹم پر سوال کھڑے ہوئے۔ عدالت کے مطابق پولس نے جنہیں گرفتار کیا وہ قصور وار نہیں نکلے ۔لہذا پولس کا فرض بنتا ہے کہ وہ بتائے کہ اس وقت فساد بھڑکانے والوں میں کون شامل تھا ۔کیااس میں سراسر پولس کی ناکامی نہیں ہے؟ ۔اس طرح کے بہت سے معاملے سامنے ہیں ،کہ جن میں پولس نے بے قصوروں کو بند کیا اور اصل مجرم پکڑ میں نہیں آئے ۔یہ حال قومی دارالحکومت دہلی کی اس پولس کا ہے جو خود کو مستعد ،تیز طراراور جدیدصلاحےتوں سے لیس مانتی ہے ۔












