بہارمیں ابھی نوکریوں کی بَہارہے۔بڑے پیمانے پراساتذہ کی تقرری ہوئی۔ مزیدایک لاکھ بیس ہزاراساتذہ کی تقرری کااعلان آچکاہے۔یہ تاریخی قدم ہے۔اس کے علاوہ بہاراسٹاف سلیکشن کمیشن اوربہارپبلک سروس کمیشن کے ذریعہ مختلف ا سامیوں پرتقرری کاعمل جاری ہے،اس کے لیے بہارسرکارکی چوطرفہ ستائش ہورہی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔دوسری طرف بہارمیں اردوکے ساتھ کھلے عام تعصب برتاجارہاہے،ایسالگتاہے کہ افسران اردوکے تئیں کچھ زیادہ متعصب ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر افسران تعصب برت رہے ہیں توبہارسرکارکیاکررہی ہے؟اردومخالف اقدامات کے لیے بہارحکومت کیوں ذمہ دارنہیں ہے؟بہارمیں نوکریوں کی بہارکے درمیان اردوکے ساتھ ہورہے متعصبانہ رویے کی چندجھلکیاں پیش کی جاتی ہیں جنہیں غورسے پڑھنے،سمجھنے،ان کے بین السطورمیں جانے اور’انترآتما‘سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔
(1) اردوٹی ای ٹی کامسئلہ دس برس سے التوا میں ہے،ہربار وعدہ کیاجاتاہے لیکن بس جملے بازی ہورہی ہے۔مختلف وفدوزیراعلیٰ سے ملاقات کرچکاہے لیکن جلدمسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کراکرسرکارسوجاتی ہے۔(2)معاون اردو مترجم کے پی ٹی،مینس امتحان کے بعد جولائی،اگست 2022 میں کونسلنگ ہوگئی لیکن 14 ماہ سے بلاوجہ (محض اردو دشمنی میں) لسٹ روک رکھی گئی ہے، (یادرہے کہ پرائمری زمرہ میں بی ایڈ والوں کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہوتے ہوئے بھی ٹیچرز کا رزلٹ جاری کردیا گیا، اور معاون اردو مترجم میں بہانہ بنایاجارہاہے (یہ ذہنیت بتانے کے لیے کافی ہے)جب کہ کورٹ میں سب کا معاملہ تھا بھی نہیں،کچھ کی وجہ سے سب کولٹکایاگیاجس کا کوئی معقول جواب بہار سرکار کے پاس نہیں ہے،افسران صرف اردو کے ساتھ تعصب میں بہانہ بنارہے ہیں جس کے لیے سیدھے طور پر بہار سرکار ذمہ دار ہے)یہ بھی یادرہے کہ کورٹ نے جب اسٹے نہیں لگایا تو لسٹ بلاوجہ روکنے کاکیاجوازہے؟پرائمری ٹیچرزکے بی ایڈکامعاملہ سپریم کورٹ میں رہنے کے باوجود بہارسرکاررزلٹ نکال دیتی ہے لیکن معاون اردومترجم کے مسئلہ پربہانہ بنایا جاتاہے۔بی ایس ایس سی کے افسران نے اس مسئلہ پروزیراعلیٰ کوگمراہ کن جواب دیا،لیکن وزیراعلیٰ معصوم بن گئے جیسے انہیں کچھ معلوم نہیں،اس سے سرکارکی نیت پرسوال ہونایقینی ہے۔وزیراعلیٰ اپنے افسران سے کاؤنٹرسوال تک نہیں پوچھ سکے کہ کورٹ نے اسٹے تونہیں لگایاہے تولسٹ کیوں روک رکھی؟یہ سوال بھی نہیں کیاکہ سبھی کامسئلہ کورٹ میں نہیں ہے بلکہ صرف ان لوگوں کامعاملہ ہے جن کے پاس نیااین سی ایل ہے۔لیکن جوجنرل امیدوارہیں یاای ڈبلیوایس کے وہ امیدوارجن کے پاس فارم بھرنے کی آخری تاریخ سے پہلے کی دستاویز ہیں یااوبی سی کے جن امیدواروں کے پاس بی ایس ایس سی کے نوٹیفکیشن کے مطابق پرانااین سی ایل ہے ان کی لسٹ بلاوجہ کیوں روک کررکھی گئی اورچودہ ماہ سے ان کوکیوں لٹکایاگیا۔اس کاجواب نہ تووزیراعلیٰ کے پاس ہے،نہ ان کے وزراء اورافسران کے پاس اورنہ ان کے ان مسلم لیڈران کے پاس ہے جواُن کوسیکولرلیڈربتاکرشبیہ چمکانے میں لگے ہیں،اس سے حکومت کی شبیہ بگڑ رہی ہے،چمک نہیں رہی ہے۔ اب تومعاون اردومترجم کاکیس کورٹ سے واپس لے لیاگیاہے جس کے بعدبہانہ کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ پھر کیوں تاخیرکی جارہی ہے۔سرکارچاہے توایک دن میں لسٹ نکل سکتی ہے لیکن معاملہ چوں کہ اردوکاہے اس لیے توبھیدبھاؤنہیں کیاجارہاہے؟یہ سوال اس لیے بھی کہ جب سوالاکھ اساتذہ کی تقرری کاعمل اتنی جلدی مکمل ہوسکتاہے تو1294سیٹوں کی لسٹ جاری کرکے ان کی تقرری کاعمل کیوں نہیں کرایاجاسکتا؟یہ کیوں نہیں کہا جاسکتا کہ سوال نیت اورذہنیت کا ہے،مسئلہ اردوکے ساتھ تعصب کاہے،معاملہ اردواوراقلیتوں کے ساتھ بھید بھاؤ کا ہے؟ وزیر اعلیٰ،نائب وزیراعلی کوباربارتوجہ دلائی جارہی ہے،ان کی چپی کیوں نہیں یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ بھی اس کے لیے ذمہ دارہیں۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان بندھوامزدورہے ووٹ دے ہی دے گامگرایسانہیں ہے اگراردوسے متعلق مسائل حل نہیں کیے گئے تواس کا نقصان یقینی طور پر الیکشن میں ہونا ہے۔ اوراس کی بڑی قیمت مہاگٹھ بندھن میں شامل پارٹیوں کوچکانی پڑسکتی ہے۔
(3) اردو اکیڈمی چار سال سے تعطل کی شکار رہی ہے اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟ وزیراعلیٰ کواس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے لیکن وہی ایک مخصوص ذہن کارفرما ہے۔ (4) اسکولوں سے اردو کو لازمی مضمون سے ہٹادیاگیا۔لوگوں نے وزیرتعلیم سے ملاقات کی،دوسرانوٹیفکیشن نکالاگیاجومعاملہ کومزیدالجھانے والاہے۔ وزیرتعلیم سے لے کر افسران تک مسلمانوں کوگمراہ کررہے ہیں۔اس مسئلہ کوبھی جلدحل کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اردوکابڑانقصان ہوگا۔(5) ابھی ٹیچرز کی بحالی ہوئی۔اخبارات کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار میں 9500 اردو ٹیچرز بحال ہوئے یعنی آٹھ فی صد کے آس پاس، یہ تعدادمزیدہونی چاہیے تھی (6)اخبارات میں یہ خبربھی آئی کہ اسکولوں سے خالی اسامیوں پرجورپورٹ مانگی گئی وہاں بھی اردوکی سیٹیں چھپائی گئیں اورغلط رپورٹ دی گئی،کئی مسلم لیڈران نے بھی حکومت کی توجہ اس جانب کرائی ہے،سوال یہ ہے کہ ان چیزوں پرگرفت کرناکس کی ذمہ داری ہے۔اگرافسران کی ذہنیت اردومخالف ہے اوراقلیتوں کے تئیں ان کامنفی رویہ ہے توسیکولراتحادکی حکومت کس مصرف کی ہے؟سوال حکومت سے ہوگاافسران سے نہیں،اس لیے ان تمام مسائل کے لیے براہ راست حکومت کوذمہ دارکہاجاسکتاہے۔اردواوراقلیت سے متعلق اداروں خصوصابہاراقلیتی کمیشن نیزملی اداروں،اردوسے وابستہ شخصیات کوبھی اس پرحکومت سے،بہاراسٹاف سلیکشن کمیشن اورمتعلقہ افسران سے جواب طلب کرنا چاہیے۔(7)بہاراسٹیٹ سنی وقف بورڈمیں کتنی آسامیاں خالی ہیں؟کیوں خالی ہیں؟حکومت کواس کاجواب دیناچاہیے(اس کاجواب چیئرمین صاحب کے پاس بھی نہیں ہوگا۔)(8)مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں تدریسی عملہ کی قلت ہے۔بہت سوال اٹھایاگیاتوایک دوسیٹوں پرحال میں بحالی کی گئی جوبالکل ناکافی ہے۔ (9)اردومترجم کی 202سیٹوں کے لیے امتحان ہوالیکن صرف 149سیٹوں پرتقرری ہوئی،53سیٹیں خالی رہ گئیں،اگربی ایس ایس سی کو امیدوار نہیں ملے تو تیسری، چوتھی لسٹ کیوں نہیں نکالی گئی؟ان کے علاوہ بھی مترجم کی سیٹیں بہارمیں خالی ہیں،ان پرتقرری کا نوٹیفکیشن کیوں نہیں نکالاجارہاہے؟ان سب کے لیے کون ذمہ دار ہے۔سترہ برس سے اوران سے پہلے پندرہ برس تک وہی لوگ توبہارکے اقتدارپررہے ہیں جنہیں اقلیتوں کا سب سے بڑا ہمدردجتانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ (لیکن یہ سرسری آئینہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ کہنے میں اورکرنے میں کتنافرق ہے اوراصل چہرہ کیاہے)ان میں سے بیش ترمسائل ان کے ہی دوراقتدارکے پروردہ ہیں۔جب حکومت مختلف شعبوں میں تیزی سے تقرری کا عمل کررہی ہے تو ان سیٹوں پرچپی کیوں سادھ رکھی گئی ہے؟کیاصرف اس لیے کہ یہ اقلیتوں سے متعلق اسامیوں کامعاملہ ہے،اگروجہ یہ ہے توپھرعظیم اتحادکے حکمرانوں کو سیکولراوراقلیتوں کامسیحاکیسے کہاجاسکتاہے؟
حکومت بہارمیں شامل پارٹیوں کے مفادمیں ہے کہ جلدازجلداردوسے متعلق مسائل حل کیے جائیں۔عظیم اتحادکو خوش فہمی سے نکل جاناچاہیے کہ مسلمان ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے،مسلمانوں کے درمیان بھی بیداری آرہی ہے۔اردوسے متعلق بہارسرکارکے مبینہ متعصبانہ رویہ سے مسلم سماج میں منفی پیغام جارہاہے۔جس کافائدہ مجلس جیسی پارٹیاں اٹھاسکتی ہیں،اوریقینی طورپراٹھائیں گی۔اس لیے وقت رہتے مناسب ہے کہ بہارحکومت ترجیحی طورپرمعاون اردومترجم،اردوٹی ای ٹی،اسکولوں میں اردوبطورلازمی مضمون کے مسئلہ کوحل کرے،اساتذہ کی تقرری میں اردوکی مناسب حصہ داری دی جائے ورنہ جوکچھ انتخابی نقصان ہوگااس کی ذمہ داری براہ راست حکمراں جماعتوں پر ہوگی۔حکمراں جماعتوں میں شامل مسلم لیڈران کوبھی چاہیے کہ وہ اپنی اپنی پارٹیوں کے مفادمیں ہی سہی،ان مسائل کے حل کے لیے حکومت پرزوردیں،ورنہ اسمبلی الیکشن میں سیمانچل کا رزلٹ بہت کچھ بتانے کے لیے کافی ہے۔اس کاری پلے لوک سبھاالیکشن میں بھی دیکھاجاسکتاہے۔پھراپنے لیڈروں کوسیکولربتانے اوراقلیتوں کا مسیحا ثابت کرنے کی کسی مہم کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بس حل یہ ہے کہ یہ تمام مذکورہ مسائل وقت رہتے حل کرلیے جائیں۔
محمدفیاض الدین












