حال ہی میں نتیش کمار نے عظیم اتحاد سے الگ ہو کر قومی جمہوری اتحاد کے ساتھ حکومت سازی کے بعد بہار قانون ساز اسمبلی میں اکثریت حاصل کریہ ثابت کردیا کہ بہار کی سیاست کے محور ومرکز وہ اب بھی ہیں۔یہ اور بات ہے کہ اس بار بھارتیہ جنتا پارٹی اتحاد میں ان کی وہ پہلے جیسی طوطی نہیں بول رہی ہے ۔یہ جگ ظاہر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں وہ اپنی شرطوں پر نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی شرطوں پر گئے ہیں اور اس کا خلاصہ خود نتیش کمار نے گذشتہ دن گیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی میٹنگ میں کیا ہے ۔ واضح ہو کہ اس میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو انہوں نے یقین دلایا ہے کہ اب وہ ان کا ساتھ چھوڑ کر کبھی نہیں جائیں گے۔اس پر حزب اختلاف کی طرف سے طرح طرح کے بیانات آنے لگے ہیں ۔یہ حسن اتفاق ہے کہ حالیہ ہفتہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کا دوبار بہار دورہ ہوا ہے اور انہوں نے سینکڑوں مرکزی اسکیموں کے افتتاح اور سنگِ بنیاد رکھے ہیں۔دراصل پارلیامانی انتخاب کا اعلان کسی بھی دن ہو سکتا ہے اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابی مہم کا آغاز کردیاہے اور عظیم اتحاد بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو کی جن وشواس یاترا کے بعد 3؍ مارچ2024کو گاندھی میدان پٹنہ میں پارٹی کارکنوں کی جو مہا ریلی بلائی گئی تھی اور اس میں بہار کے عظیم اتحاد کے ساتھ ساتھ قومی سطح کی نئی سیاسی صف بندی ’’انڈیا‘‘ کے لیڈران کی شرکت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ آئندہ پارلیامانی انتخاب میں آر پار کی لڑائی لڑنے کو تیار ہیں۔پٹنہ کی جن وشواش ریلی میں لالو پرساد یادو نے جس طرح نتیش کمار اور نریندر مودی کو نشانہ بنایا ہے اور راہل گاندھی کے ساتھ ساتھ کانگریس کے قومی صدر کھڑگے جی ، بایاں محاذ کے سیتا رام یچوری ، ڈی راجا اور سماجوادی پارٹی کے سپریمو اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یاد و نے جس طرح مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ نتیش کمار کی حکومت پر حملہ کیا ہے اس سے بہار کی سیاست کا بیانیہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عرصے کے بعد گاندھی میدان میں غیر بھاجپائی جماعتوں کا اتنا بڑا عوامی جلسہ ہوا ہے اور جس میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے اور نتیش کمار کی سیاست کو بہار کے لئے مضر قرار دیا گیاہے اس سے پوری ریاست میں سیاسی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی ہیں ۔اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل متحدہ نے اس ریلی کی کامیابی کا دعویٰ کرنے والوں پر سوال اٹھایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ بھیڑ ووٹوں میں تبدیل ہونے والی نہیں ہے ۔کل کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تیجسوی یادو کی جن وشواش ریلی سے عظیم اتحاد کے تئیں ایک ماحول سازگار ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔اس سے پہلے جن سوراج سیاسی جماعت کے بانی پرشانت کشور گذشتہ ایک سال سے ریاست گیر پیدل مارچ کر رہے ہیں اور ایک طرح سے ان کا پیدل مارچ سیاسی ذہن سازی کا ہی حصہ ہے کہ پرشانت کشور عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بہار کی سیاست میں کس طرح عوام کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے دیگر جذباتی اور اشتعال انگیز سیاست کرکے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔واضح ہو کہ پرشانت کشور الگ الگ سیاسی جماعتوں کے سیاسی مشیر رہے ہیں ۔ بہار میں وہ نتیش کمار کے لئے بھی کام کرتے رہے ہیں اور گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے بھی کام کیا ہے ۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے انتخابی مشیر کے طورپر انہوں نے اپنی شناخت بنائی ہے لیکن اس وقت وہ خود ایک نئی سیاسی جماعت بنا کر اپنی نئی شناخت قائم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ان کی یہ مہم کس قدر کامیاب ہوگی یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن انہوں نے بھی بہار کی سیاست کو ایک نیا بیانیہ ضرور فراہم کردیا ہے۔
مختصر یہ کہ عظیم اتحاد کی پٹنہ ریلی نے قومی سیاسی صف بندی ’’انڈیا‘‘ کو بھی تقویت پہنچائی ہے اور روزگار کے نام پر ایک نئی سیاسی فضا بننے لگی ہے۔راشٹریہ جنتا دل اور تیجسوی یادو کا موقف ہے کہ گذشتہ سترہ مہینوں میں عظیم اتحاد کی حکومت نے چھ لاکھ سے زائد روزگار دینے کا کام کیا ہے ۔خود لالو پرساد یادو نے بھی اپنے پرانے انداز میں نتیش کمار کو نشانہ بنایا کہ وہ وزیر اعلیٰ تو پندرہ سالوں سے ہیں لیکن تیجسوی کے ساتھ مل کر ہی بہار کے لوگوں کی فلاح کے لئے کئی بڑے کام نتیش کمار نے کیا اور اب جب وہ عظیم اتحاد سے الگ ہوگئے ہیں تو پھر جس برق رفتاری سے روزگار دینے کا کام چل رہا تھا اس پر ایک طرح سے بریک لگ گئی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نتیش کمار جن کے ہاتھ میں کل بھی قیادت تھی اور آ ج بھی ہے ، وہ تیجسوی یادو اور دیگر حزب اختلاف کے لیڈروں کے اس چیلنج کو کس طرح قبول کرتے ہیں اور اپنے کاموں کے ذریعہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ کل جتنے کام ہوئے وہ ان کی وجہ سے ہی ہوئے اور آج جو کچھ ہو رہاہے اس کے قائد بھی وہ خود ہیں۔اگرچہ ان کی پارٹی کے کئی سرکردہ لیڈروں نے تیجسوی یادو کے اس دعوے کو کھوکھلا کہہ کر نتیش کمار کی حمایت کی ہے ۔پٹنہ کی ریلی میں جس طرح کانگریس کے قومی صدر مسٹر کھڑگے اور راہل گاندھی نے کانگریس کے سیاسی خطوط کی وضاحت کی اور ملک کے بیروزگاروں کے مسائل کو ترجیحات دینے کی وکالت کی اور ساتھ ہی ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے کی جدو جہد پر زور دیا اس سے بھی بہار کے کانگریس کارکنوں کے اندر ہی نہیں بلکہ ’’انڈیا‘‘ اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک نئے جوش وخروش کے ساتھ زمینی سطح پر کام کرنے کو تیار ہوئے ہیں اس سے بھی ریاست میں عظیم اتحاد اورقومی سطح پر انڈیا اتحاد کو خاطر خواہ فائدہ ہونے کی امید جگی ہے مگر اس تلخ حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جب تک انڈیا اتحاد کے درمیان پارلیامانی سیٹوں کی تقسیم کے فیصلے پر آخری مہر نہیں لگتی اس وقت تک تذبذب کا ماحول بھی بنا رہے گا جو اس کے لئے مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس لیڈر ووزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کا پٹنہ کی ریلی میں انڈیا اتحاد کے دیگر لیڈروں کے ساتھ شامل نہیں ہونا بھی نئی سیاسی صف بندی کی راہ میں ایک بڑا رخنہ ثابت ہو سکتا ہے۔
بہر کیف ! تیجسوی یادو کی جن وشواس ریلی نے یہ تو ثابت ہی کردیا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کے کارکن ریاست میں حکومت سے باہر ہونے کا انتقامی جذبہ لے کر دیہی علاقوں کی گلیوں سے لے کر ریاست کی راجدھانی پٹنہ کے تاریخی گاندھی میدان تک صرف اپنی تنظیمی طاقت کا مظاہرہ ہی نہیں کرسکتے بلکہ وہ بہار کی سیاست کو ایک نیا رخ دینے کے لئے بھی کمربستہ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پارلیامانی انتخاب کے اعلان تک عظیم اتحاد کے لیڈران اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مزید متحد کرنے اور علاقائی سطح پر نئی سیاسی فضا تیار کرنے میں کس طرح کامیاب ہو تے ہیںکیو ںکہ فیصلہ تو بہر حال بوتھوں تک پہنچنے والے کارکنوں کے ووٹوں سے ہی ہونا ہے۔