ایک جمہوری ملک میں رہنے اور بسنے والوں کواپنی حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ،کیونکہ اقتدار پر بیٹھا شخص ان کا چنا ہوا نمائندہ ہوتا ہے ۔لہذا وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے ہمہ وقت اپنی چنی ہوئی حکومت سے لو لگائے رہتے ہیں ۔جمہوری حکمراں کا بھی فرض ہوتاہے کہ وہ ان کی امیدوں پرکھرا اترے اور عوامی مسائل جسمیں تعلیم ،روزگار ،صحت،کے علاوہ دیگر سماجی ،اقتصادی اور سیاسی مسائل شامل ہوتے ہیں ،کو حل کرنے کے لئے پابند عہد ہوتا ہے ۔جمہوریت کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں لوگوں کو اپنی بات آزادانہ طور سے کہنے اور حکومت کے سامنے رکھنے کی آزادی ہوتی ہے ۔اس میں نا تو انہیں جیل میں ڈالے جانے کا خوف ستاتا ہے ناہی انہیں سچ کہنے سے ڈر ہی لگتا ہے ۔ایک جمہوری حکمراں میں بھی فراخ دلی کا یہ عنصر ضرور پایا جاتا ہے کہ وہ عوام کی آواز ،ان کے دل کی ترجمانی کو بغور سنتا ہے ،بلکہ ان کے اندر کی گھٹن کو دل کی عمیق گہرائیوں سے محسوس کرتا ہے لہذا بجائے اس کے کہ وہ ان کی توجہ دوسری جانب موڑنے کی کوشش کرے، ان کے مسائل کو جلد حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہی ایک جمہوری نطام کی خوبصورتی بھی ہے اور اس کا تقاضابھی۔لیکن کیا ہم اپنے ملک میں اس خاصیت کی خوشبو کو محسوس کررہے ہیں ،کیا ہم اس سے محرومی کے احساس سے جوجھ تو نہیں رہے ہیں ،یہ سوال اکثر ہمیں جھنجوڑتے رہتے ہیں۔چونکہ ہمیں اس پر کم ہی یقین آتاہے کہ ہمارا ملک بھی موجودہ حکومت کے زیر سایہ جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوتا جارہا ہے اس لئے کبھی ہم اپنے ذہن اور دل کے درمیان کی تکرار سنتے ہیں تو کبھی یہی تکرار اور گھمسان عوام اورحکومت کے درمیان بھی سیاسی حملوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ پچھلے کچھ سالوںسے نہ جانے کیوں یہ سوال کچھ لوگوں کو پریشان کرے ڈال رہا ہے کہ بی جے پی کی موجودہ مرکزی حکومت میں عوام کو وہ حقوق میسر نہیں ہیں جو تقریبا آٹھ سال پہلے میسر تھے۔عوام کو یہ درد ستائے ڈال رہا ہے کہ جب وہ کچھ سچ بولنے کی جرائت کرتے ہیں توان کو خاموش کیوں کرا دیا جاتا ہے ؟۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب یہ شکوہ اکا دکا لوگوں کی زبان پر نہیں بلکہ اکثر لوگوںکی زبان پر ہے اوراس میں اپوزیشن جماعتیں بھی پیش پیش ہیں۔سڑک اور گھروں سے بلند ہوئی لوگوں کی شکایت اب اکثر عوامی نمائندوں اور رکن پارلیمنٹ کی بھی زبان پر جاری وہ ساری ہے ۔لیکن اس کو درکنار اور نظر انداز کر کے عوامی توجہ کا رخ دوسری طرف موڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔حالانکہ عوام اس کو بہ خوبی سمجھ رہے ہیں ۔خود اپوزیشن جماعتیں اس کو محسوس کررہی ہیں ۔راہل گاندھی کانگریس کے ایک لیڈر ہیں اور نہرو گاندھی خاندان کے چشم و چراغ بھی ، ان کے آبائو اجداد بھی اسی ملک بھارت کے رہنے والے تھے اور ان کا بھی ملک کی سیاسی تعمیر میں برابر کا حصہ تھا ۔راہل گاندھی کو بھی اپنی بات کہنے اور بولنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارے وزیر اعظم اور حکومت کے دیگر لیڈروں کو حاصل ہے۔لندن میں ان کے دئے حالیہ بیان پر جس طرح سے ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔مشکل یہ ہے کہ ایک جماعت کا ذہن اتنا تنگ اور پراگندہ ہوگیا ہے کہ اسے اپوزیشن اور مخالف ٹولے کے بیانوں میں گندگی اور میل کچیل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے!۔راہل کے بیان میں ایسا کیا ہے جس سے کہ وہ معافی مانگیں ،ان سے معافی کامطالبہ غیر ضروری لگتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ آج ان کے بیان پر ہنگامہ کیوں مچا ہوا ہے ،جبکہ اس سے قبل ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ماضی میں بیرون ملک جاکر کیاکچھ نہیں کہا؟،کیا وزیر اعظم نے ملک میں آکر کوئی معافی مانگی تھی ؟یا اپوزیشن نے ان سے کوئی سوال کیا تھا؟۔اس وقت بی جے پی کو اپنے ملک کی بے عزتی محسوس نہیں ہوئی ،کیوں؟۔در اصل ملک کے اکثر عوام بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی کیا چاہتی ہے ،اصل بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے غیر ضروری ایشو ز کو اچھال کر عوام کے سلگتے مسائل سے توجہ ہٹانے کی ایک منصوبہ بند کوشش ہورہی ہے۔اسلئے مہنگائی ،روزگار، نوکریاں اور دیگرسلگتے اقتصادی مسائل پر پردہ ڈالا جارہا ہے ۔آج عام لوگوںاور اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں میں یہ خوف ہے کہ انہیں سچ بولنے پر عتاب کا سامنا پڑے گا ۔بد قسمتی یہ ہے کہ راہل گاندھی پر جاری بحث اور تنازع کے درمیان کانگریس لیڈر کو بھی یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ کل ا نکو پارلیمنٹ میں بولنے دیا جائے گا کہ نہیں؟یہ کیسے حالات ہوگئے ہیں!لیکن اب یہ سب دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا! ۔حکمراں جماعت کیلئے کیا یہ کم توہین آ میز بات نہیں کہ آج اپوزیشن لیڈرکو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں کل اسے اپنی صفائی میںبولنے بھی دیا جائیگا یا نہیں !۔ سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں اور عوام کے اس درد کو حکمراں جماعت بی جے پی کو سمجھنا ہوگا اورجمہوری تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا ۔ کیونکہ یہ ایک کامیاب جمہوریت کی خاصیت ہوتی ہے کہ اس میں عوام کو کھل کر بولنے کی آزادی ہوتی ہے اور ان کی کوئی سرزنش بھی نہیں کیا جاتی۔