غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے تحت فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم نے انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے۔ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس خطہ میں برسر عام نسل کشی ہو رہی ہے ۔ کمال یہ ہے کہ یہ سب وہ یہودی کر رہے ہیں جن کو دنیا ہٹلر کی ستائی ہوئی قوم کہتی ہے ۔اور ساری دنیا کے لوگ ہٹلر پر اسی لئے لعنت کے ڈونگرے برساتی ہے کہ اس نے یہودیوں کی نسل کشی کی تھی ۔اور اسی مظلومیت کی دہائی دیکر یہودیوں نے اپنے لئے ایک ملک کی گذارش کی تھی ۔جس وقت اسرائیل کو یہ خطہ سونپا گیا تھا اس وقت کسی کے سان و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ سکون کی سانس لیتے ہوئے یہ یہودی خود ہٹلر سے بھی زیادہ خونخوار بن جائینگے اور ان لو گوں کی نسل کشی شروع کر دینگے جنہوں نے انہیں اپنی زمینیں دیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیوں پر ہٹلر نے انتہائی بربریت کی تھی ،لیکن اس بربریت کے خلاف ساری دنیا نے ہٹلر کو عبرت کا نشان بنا دیا اور آج بھی ساری دنیا میں ایڈولف ہٹلر کا نام ہی بربریت کی علامت بن چکا ہے ۔لیکن 21ویں صدی میں جب ساری دنیا خود کو مزید مہذب سمجھ رہی ہے ،ترقی کے مدارج طئے کرتے کرتے ستاروں پر بھی پہنچنے والے لوگ غزہ میں ہونے والی خونریزی کو براہ راست ٹی وی کے اسکرین اور موبائل پر دیکھنے کے بعد بھی خاموش ہیں ۔دنیا کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ بھوک سے بلکتے بچوں اور بوڑھوں کو نیز خواتین کو راشن کی تقسیم کے نام پر اکٹھا کیا جا رہا ہے اور پھر کبھی ان پر بم گرا دیا جارہا ہے اور کہیں گولیوں سے بھون دیا جارہا ہے ۔اور پھر بھی عالمی برادری کے قصیدہ خواں انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے نعرے لگاتے ہوئے شرمندگی محسوس نہیں کر رہے ہیں ۔
آئے دن معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور نہتے شہریوں کی لاشیں ملبے سے نکالی جا رہی ہیں۔ اسپتال، اسکول، اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپ اور عام شہریوں کی رہائش گاہیں مسلسل بمباری کا نشانہ بن رہی ہیں۔ اس مسلسل ظلم و ستم کے باوجود دنیا کی اکثریت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے، جو عالمی ضمیر کے دیوالیہ پن کی علامت ہے۔
غزہ میں یہ قتل عام صرف جنگی کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم نسل کشی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں، انسانی حقوق کے عالمی منشور، اور جنیوا کنونشن کی تمام دفعات کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ لیکن اسرائیل کی پشت پر کھڑی طاقتیں اس کی ہر جارحیت کو "دفاعی اقدام” قرار دے کر اس ظلم کو جواز فراہم کر رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کا وجود ہی مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ صرف مغربی طاقتیں بلکہ مسلم دنیا کی حکومتیں بھی عملاً خاموش ہیں۔ چند رسمی بیانات، اجلاسوں اور قراردادوں سے آگے کچھ نہیں ہو رہا۔ اس دوران لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، غزہ کی آبادی کا بڑا حصہ فاقہ کشی اور بیماریوں کی زد میں ہے، جبکہ ادویات اور طبی امداد تک روک دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے جو انسانی حقوق کی محافظ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔
اسرائیلی جارحیت کو بند کروانے کے لیے محض الفاظ نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری، خصوصاً اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف اجتماعی مقدمات دائر کریں، معاشی پابندیاں لگائیں اور سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سول سوسائٹی کو بھی چاہیے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی آواز بنے اور بائیکاٹ، ڈس انویسٹمنٹ اور سینکشنز (BDS) جیسی مہمات کو تقویت دے۔
یہ ایسا وقت ہے جب خاموشی بھی جرم ہے۔ غزہ کے بچوں کی چیخیں، ماں کی آہیں اور بزرگوں کی کراہیں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ کیا ہم صرف تصویریں دیکھ کر افسوس کرنے والے ہیں یا ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے بھی؟ اس ظلم کے خلاف دنیا کی خاموشی اگر جاری رہی تو تاریخ نہ صرف قاتلوں کو بلکہ تماشائیوں کو بھی معاف نہیں کرے گی۔ایک اسرائیل نے عالمی طاقتوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے ۔اقوام متحدہ کو معذور بنا دیا ہے اور مسلسل اس کی قرار دادوں کو وہ اپنے پیروں سے مسلتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے ۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم سب یک آواز ہو کر کہیں:
"غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام بند ہو!”
"انسانیت کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے!”