سوڈان بر اعظم افریقہ کا ایک بڑا اسلامی ملک ہے جس کا دار الحکومت خرطوم ہے اور اس کی سرکاری زبان عربی ہے ، 1956سے پہلے یہ ملک خارجی قوتوں کے زیر اثر تھا ، 1956میں آزادی ملنے اور خود مختار ریاست بننے کے بعد بھی یہ بد قسمت ملک مذہبی تنازعات ، نسلی امتیازات ، غیر ملکی مداخلات او ر سیاسی انتشار کی بنا پر زبردست بد امنی اور ہلاکت خیز خانہ جنگی کا ہمیشہ شکار ہاہے ، اس ملک میں اکثر فوجی بغاوتیں ہوتی رہی ہیں ۔
کچھ سالوں پیشتر امریکی و مغربی سازشوں کے نتیجے میں اس بد امن و غیر مستحکم ملک کو دو حصوں میں تقسیم ہونا پڑا اور 2011ء میںباضابطہ ایک ریفرنڈم کے ذریعہ جنوبی سوڈان کو ایک علیحدہ ریاست بنا دیا گیا ۔
فی الوقت یہ ملک نہایت برے حالات کا سامنا کررہا ہے ، ملک کے دو قد آور قائدین اور فوجی جرنیلوں کے درمیان سیاسی مفادات کے حصول کے لیے زبردست تصادم دیکھنے کو مل رہا ہے جس کے نتیجے میں پورا ملک جنگ کی آگ میں جھلس رہاہے ، 15 اپریل 2023ء سے سوڈانی مسلح افواج (SAF) کے سربراہ عبد الفتاح البرہان اور نیم فوجی دستوں یعنی ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)کے سربراہ جنرل محمد حمدان کے درمیا ن ٹکڑاؤ کی بنا پر دونوں فوجیں ایک دوسرے کو زیر کرنے اور ملک کے درو بست پر قابض ہونے کے لئے آپس میں برسرپیکار ہیں ۔ماضی میں دونوں رہنماؤں کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں ، دارفور کی بغاوت کو کچلنے میں دونوں نے مل کر کام کیا تھا ، سابق صدر عمر البشیر کے زمانہ میں عبد الفتاح البرہان مسلح افواج کے کمانڈ ر تھے اور جنرل محمد حمدان دارفور کے باغی گروپوں کو کچلنے میں مدد کرنے والے سرکاری حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں میں سے ایک گروپ کے کمانڈر تھے جو بعد میں سارے گروپوں کے لیڈر بن گئے ، ان کو عمر البشیر نے خوب استعمال کیا اور سوڈانی نیم فوجی دستو ں یعنی آر ایس ایف نامی ملیشیاؤں کا کمانڈر بنادیا ، فوجی بغاوت کے خطرہ سے نمٹنے کے لئے عمر البشیر نے آر ایس ایف کو مضبوط بنایا ، ان کا خیال تھا کہ فوج کے مقابلہ میں ایک متوازی مسلح قوت کے موجود ہونے سے ان کی حکومت محفوظ رہے گی کیونکہ دونوں میں سے کسی کے لئے بھی انہیں معزول کرنا مشکل ہوگا ، حالانکہ ان کی سوچ غلط ثابت ہوئی اور 2019 ء میں ان کا تختہ پلٹنے کے لئے دونوں مسلح قوتیں یعنی مسلح افواج اور نیم فوجی دستے متحد ہوگئے اور ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا ، اس کے بعد دونوں نے مل کر ایک سویلین ملٹری باڈی تشکیل دی جس کے سربراہ(صدر ریاست) عبد الفتاح البرہان بنے اور ان کے نائب(نائب صدر ) آر ایس ایف سربراہ جنرل محمد حمدان بنے ،دھیرے دھیرے ذاتی مفادات کی بنا پر دونوں قائدین کے درمیان اختلافات پیدا ہونے لگے اسی درمیان ملک کے صدر اور مسلح افواج کے کمانڈر عبد الفتاح البرہان نے ریپڈ فورسزکی طاقت اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کے پیش نظر اس کو دوسال کے اندرعام فوج میں شامل کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا ، ریپڈ فورسز نے اس کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھااورایک آ زاد و خود مختار فوج کے طور پربرقرار رہنے پر اصرار کیا ، البتہ اس نے ملک میں سویلین حکومت قائم ہوجانے کے دس سالوںکے اندر مرحلہ وار فوج میں مدغم ہوجانے کی حامی بھر لی ، اس معاملہ پر رد و قدح کے درمیان 15 اپریل کی صبح سے خرطوم اور اس کے نواحی علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس میں شدت آتی چلی گئی ، بڑے بڑے خطرناک جنگی ہتھیا ر استعمال ہونے لگے ، کشت و خون کا بازار گرم ہوگیا ، ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے لگی ، سویلین علاقوں میں بھی بم اور راکٹ گرنے لگے ، لوگوں کو گھر بار اور مکان و دکان چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوناپڑا ، غریب عوام کو ان کے عاقبت نا اندیش رہنماؤں کے مہلک فیصلوں کی وجہ سے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ، اب تک ایک ہزا ر سے زیادہ جانیں ضائع ہوچکی ہیں ، پانچ ہزار کے قریب لوگ زخمی ہیں ، اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ۔
جیسے ہی اس ملک میں جنگ کی آگ بھڑکی اپنی امن پسندی اور دینی بھائی چارگی کی بھر پور رعایت کی دیرینہ روایت کے مطابق مملکت سعودی عرب نے دونوں متحارب گروپوں کے ساتھ اتصال کرنے اور انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کردی ، دونوں فریق جلد ہی ایک دوسرے کو زیر کردینے کی امید لگائے ہوئے تھے اس لیے کچھ وقت لے رہے تھے ،بالآخرمملکت سعودی عرب کی دعوت پر دونوں فریق کے رہنما جدہ میں حاضر ہوئے اور امریکی وفد کی موجودگی میںمملکت نے ثالثی کا رول ادا کرتے ہوئے ان کے درمیان صلح و صفائی اور جنگ بندی کرائی ،ان کی بھر پور مالی مدد کرنے اور ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرنے کا وعدہ کیا ، فی الفور مملکت نے اپنی طرف سے کڑوڑوں ڈالرکی تعاونی رقم کے ذریعہ سوڈان کی مددکرنے کے اعلان کے ساتھ اپنی انسانیت نواز اور سخی و فیاض عوام سے بھی اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی بھرپورمالی مدد کرنے کی اپیل کی ہے جس کے نتیجے میں چند دنوں کے اندر ہی خطیر رقم جمع ہوچکی ہے، اس وقت مملکت اپنے تمام وسائل وامکانیات کو بروئے کار لاتے ہوئے مہاجرین و متضررین کی مدد میں لگی ہوئی ہے ، متاثرین کوبنیادی ضرورت کی چیزیں فراہم کرارہی ہے ،کھانے پینے اور رہنے سہنے کے سامان، دوائیں ، بچوں کی جملہ ضروریات اورخواتین کی ضرورت کی اشیاء فراہم کررہی ہے ، جنگ کے خاتمہ کے بعد ملکی معیشت کو پٹری پر لانے اور سیاسی اصلاحات میں حکومت سوڈان کی ہر ممکن مدد کرنے کا عزم مصمم رکھتی ہے ، اللہ تعالی اس حکومت کو بقا واستمرار عطا فرمائے تاکہ انسانیت کی خدمت ہوتی رہے ، اس کو استحکام بخشے تاکہ دین و دعوت کا عمل جاری و ساری رہے ، اس کی ترقی و خوشحالی میں مزید اضافہ کرے تاکہ عالم اسلام اور عالم انسانیت اس سے اور زیادہ بہرہ ورہوسکے ، اس کو دنیا کی بری نظروں سے محفوظ رکھے تاکہ توحید و سنت کی روشنی سے بقعہ عالم منور ہوتا رہے۔
نور الاسلام شفیع احمد مدنی