ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری میں تاخیر پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جمعہ کو مرکزی حکومت سے وضاحت طلب کی۔جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ابھے ایس اوکا پر مشتمل بنچ نے ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن آف بنگلورو کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کولجیم طرف سے بھیجے گئے ناموں کو زیر التوا رکھنا، ان کی منظوری نہ دینا اور کوئی نہیں وجہ بتانا اس معاملے میں ‘‘قابل قبول’’ نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے کچھ ناموں پر دوبارہ غور کرنے کے مطالبے پر بھی ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ حکومت نے کالجیم کے بار بار دہرائے جانے کے باوجود ان ناموں کو منظور نہیں دی اور متعلقہ لوگوں نے اپنے نام واپس لے لیے۔ بنچ نے کہا کہ مرکزی حکومت کی منظوری کیلئے بھیجے گئے ناموں میں سے 11 زیر التوا ہیں۔ ان میں سے سب سے پرانا ستمبر 2021کا بھی ہے ۔بنچ نے متعلقہ معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نہ تو ناموں کا تعین کرتی ہے اور نہ ہی اپنا اعتراض (اگر کوئی ہے ) بتاتی ہے ۔ حکومت کے پاس 10نام زیر التوا ہیں، جن کا سپریم کورٹ کالجیم نے اعادہ کیا ہے ۔بنچ نے کہا ’تقرری میں تاخیر سے عدالتیں متعلقہ شعبے کے نامور افراد کو شامل کرنے کا موقع کھو رہی ہیں۔ ناموں کو روکنا قابل قبول نہیں ہے‘۔جسٹس کول کی سربراہی والی بنچ نے اس معاملے میں مرکزی سکریٹری قانون سے وضاحت طلب کی اور کہا کہ ناموں کو روکنا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ تاخیر سے قانون اور انصاف کا نقصان ہوتا ہے ۔بینچ کے سامنے عرضی گزار ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن، بنگلور کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل وکاس سنگھ نے تقرری میں تاخیر کے ذمہ دار سینئر افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی درخواست کی، لیکن بنچ نے وضاحت طلب کی۔بنچ نے واضح کیا کہ فی الحال وہ توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کر رہی ہے۔ توہین عدالت کی درخواست پر صرف عام نوٹس جاری کررہی ہے۔